تیونس پر ایک اور دہشت گردانہ حملہ، کم از کم 37 ہلاکتیں
26 جون 2015تیونس کی وزارت داخلہ نے ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ دہشت گردی کا یہ واقعہ تیونس کے سیاحتی شہر سوسہ میں پیش آیا۔ وزارت داخلہ کے مطابق حملہ آور خودکار ہتھیارسے مسلح تھا۔ ایک شخص امپیریل مرحبا نامی ہوٹل میں داخل ہوا اور اُس نے اندھادھند فائرنگ شروع کر دی۔ مقامی حکام کے مطابق یہ حملہ آور پولیس کی جانب سے کی گئی جوابی فائرنگ میں مارا گیا۔ تیونس کے جس علاقے میں یہ دہشت گردی کے واقعات پیش آیا ہے، وہ نہایت خوبصورت اور پُرکشش تعطیلاتی مقام سمجھا جاتا ہے۔
دریں اثناء وزارت داخلہ کے ترجمان محمد علی آروئی نے تیونس کے سرکاری ٹیلی وژن پر بیان دیتے ہوئے اس واقعے کو ’’ دہشت گردانہ حملہ‘‘ قرار دیا اور انہوں نے کم از کم 37 افراد کی ہلاکت اور حملہ آور کو مار دیے جانے کی بھی تصدیق کر دی ہے۔ سکیورٹی ذرائک کے مطابق حملہ آور کی مدد کرنے والے دوسرے حملہ آور کا تعاقب جاری ہے۔
گزشتہ مارچ سے تیونس میں سکیورٹی ہائی الرٹ ہے۔ تب تیونس کے دارالحکومت میں ایک عجائب گھر پر ہونے والے حملے میں کم از کم 22 افراد مارے گئے تھے، جن میں اکثریت غیر ملکی سیاحوں کی تھی۔ تب حملہ آوروں نے پارلیمان کے قریب واقع باردو عجائب گھر میں متعدد سیاحوں کو یرغمال بھی بنا لیا تھا ۔ حملہ آوروں کا محاصرہ توڑنے کی کوشش میں ایک پولیس اہلکار بھی جاں بحق ہوا تھا۔ ابتدائی طور پر خیال کیا گیا تھا کہ مسلح دہشت گردوں کا ہدف پارلیمان کی عمارت تھی عمارت کو سکیورٹی فورسز نے فوراً خالی کروا لیا تھا۔
پولیس امپیریل مرحبا نامی اس ہوٹل کے ارد گرد کے علاقے کو صاف کرنے کا کام مکمل کر لیا ہے۔ ابھی تک کسی جہادی گروپ نے اس دہشت گردانہ کارروائی کی ذمہ داری قبول نہیں کی ہے۔ دریں اثناء ہوٹل میں کام کرنے والے ایک کارکُن نے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ ایک ہی حملہ آور تھا جس نے کلاشنیکوف سے سیاحوں پر فائرنگ کی۔ اُس کا مزید کہنا تھا،’’ حملہ آور ایک جوان سا شخص تھا جس نے شارٹس پہنی ہوئی تھی اور حُلیے سے وہ خود بھی کوئی سیاح معلوم ہوتا تھا‘‘۔
تیونس کو عرب دنیا کا سب سے سکیولر ملک سمجھا جاتا ہے۔ خاص طور سے 2011 ء میں عرب بہار نامی انقلاب کے تحت تیونس میں جو جمہوری تبدیلی آئی ہے اُسے ایک مثال سمجھا جاتا ہے۔ یہ ملک اپنے خوبصورت ساحلی علاقوں کی وجہ سے یورپی اور بحیرہ روم سے تعلق رکھنے والے سیاحوں میں بہت زیادہ مقبول ہے۔