1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تاجکستان: آئی ایس میں شامل ہونے والے جہادی نے توبہ کر لی

کشور مصطفیٰ15 مئی 2015

شام میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے جنگجوؤں کی صف میں شامل ہونے والے ایک تاجک جہادی نے اس شدت پسند تنظیم میں شمولیت کے بعد اپنے اس عمل سے توبہ کر لی ہے۔

https://p.dw.com/p/1FQPP
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Hannon

پچیس سالہ فرُخ شریفوو نے وسطی ایشیا میں واقع اپنے ملک میں صحافیوں اور پولیس کے سامنے اس امر کا اقرار کرتے ہوئے نہایت نرم لہجے میں کہا، ’’وسطی ایشیا سے سینکڑوں کی تعداد میں نوجوان مرد شام جا کر وہاں جاری جنگ میں شامل ہو رہے ہیں۔‘‘ فرُخ شریفوو نے گزشتہ ہفتے تاجکستان کی آمرانہ حکومت کی طرف سے بلائی گئی ایک پریس کانفرنس میں اس بارے میں انتباہ کرتے ہوئے مزید کہا کہ یہ صورتحال پورے خطے کے لیے خطرے کی ایک بڑی گھنٹی ہے۔

فرُخ شریفوو کے اس بیان کے سامنے آنے کے چند روز بعد ہی میڈیا کی رپورٹوں سے پتہ چلا کہ تاجکستان کے ایک پولیس کمانڈر نے مشرق وسطیٰ میں برسر پیکار جہادیوں کی سرگرمیوں میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ اس خبر نے آٹھ ملین کی آبادی والی مسلم اکثریتی ریاست تاجکستان میں آئی ایس کے پھیلنے کی استعداد کے بارے میں پائے جانے والے خوف میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ تاجکستان کا شمار سابقہ پانچ کمیونسٹ ریاستوں میں سب سے زیادہ غریب ریاست میں ہوتا ہے۔

Tadschikischer Präsident Emomalii Rahmon, Tadschikistan
تاجک صدر ایمومالی راخمونتصویر: DW/G. Faskhutdinov

فرُخ شریفوو چھ مئی کو شام میں آئی ایس کے چنگل سے فرار ہو کر واپس اپنے ملک پہنچا تھا۔ اُس کا کہنا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ گروپ نے اس خطے پر گہری نظر جمائی ہوئی ہے۔ اُس کا یہ بیان دراصل تاجک صدرکی طرف سے کی جانے والی تنبیہ کی بازگشت معلوم ہوتا ہے۔ تاجک صدر ایمومالی راخمون انتہا پسندی کو اپنے ملک کے لیے سب سے بڑا چیلنج قرار دے چُکے ہیں۔ اُن کے بقول آئی ایس گروپ کے جاسوس، جنہیں وہ غیر اسلامی اور شیطانی قرار دیتے ہوئے قابل مذمت کہہ چُکے ہیں، شام اور عراق کی جنگ کے شعلوں کو سابقہ سویت ریاستوں کی طرف پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اب تک اس بارے میں کوئی مستند اعداد وشمار سامنے نہیں آ سکیں ہیں کہ وسطی ایشیا کی پانچ سابقہ سویت ریاستوں سے کتنے جہادی شام جا کر وہاں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے عسکریت پسندوں کی بپا کی ہوئی جنگ میں شریک ہوئے ہیں۔ تاہم انٹر نیشنل کرائسس گروپ آئی سی جی کا کہنا ہے کہ 2011 ء سے اب تک غالباً دو سے چار ہزار تک افراد اس خطے سے جا کر وہاں جہاد میں شامل ہوئے ہیں۔

تاجکستان کے حکام کا کہنا ہے کہ ان کے قریب 386 افراد شام اور عراق میں جہادی کی حیثیت سے سرگرم ہیں۔ تاجک حکومت نے ملک میں انتہا پسندی کے خلاف شدید کریک ڈاؤن کیا ہے بلکہ کچھ کا کہنا ہے کہ تاجک حکومت نے اس ضمن میں کچھ زیادہ سخت اقدامات کیے ہیں۔ حکومت انتہا پسندی اور آئی ایس میں شمولیت کی غرض سے شام اور عراق جانے والے تاجک شہریوں کے خلاف ایک بڑی میڈیا کیمپین یا مہم چلا رہی ہے اور آئی ایس میں شامل ہو کر ملک لوٹ جانے والوں کے لیے معافی دینے کا اعلان بھی کر چکی ہے۔ تاجکستان کے حکام جبری طور پر سڑکوں پر داڑھی والے مردوں کی داڑھیاں منڈواتے ہیں جبکہ اس ملک سے حج پر جانے اور خواتین کے حجاب پر پابندی تک لگائی جا چُکی ہے۔