بغداد کی سنی مسجد میں خود کش حملہ، کم از کم 28 ہلاک
29 اگست 2011بغداد کے مغربی حصے کے ضلع غزالیہ کی مرکزی ام القریٰ مسجد میں شام کی نماز کے دوران ایک ڈھلتی عمر کے خود کش بمبار نے اپنی بارودی بیلٹ کو اڑا دیا۔ زور دار دھماکے میں وزارت داخلہ کے حکام نے کم از کم 28 افراد کے ہلاک اور 35 سے زائد افراد کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔ ہلاک ہونے والوں میں ممبر پارلیمنٹ خالد الفہدوی بھی شامل ہیں، جن کا تعلق سنی صوبے انبار کے مغرب سے ہے۔ اس مسجد میں نماز کی ادائیگی کے لیے عموماً سنی عمائدین اور شہری جاتے ہیں اور اسے وہ اپنا صدر دفتر خیال کیا کرتے ہیں۔
ام القریٰ مسجد کے سربراہ احمد عبدالغفار سمارائی نے اس دھماکے کا شبہ القاعدہ پر ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ یہ تنظیم ایک بار پھر عراق میں فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے کی کوششوں میں ہے۔ سمارائی کا مزید کہنا تھا کہ عوام اور حکومت مل جل کر ان جرائم پیشہ افراد کے خلاف اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ سمارائی کے مطابق انہوں نے خود کش بمبار کو نماز سے قبل دیکھا تھا اور وہ مسجد میں اکثر آیا کرتا تھا۔ دھماکہ اس وقت ہوا جب سمارائی حاضرین سے رمضان کے اختتامی ایام کی مناسبت سے تقریر کر رہے تھے۔
عبدالغفار سمارائی انتہاپسندوں کے سخت مخالف خیال کیے جاتے ہیں۔ وہ مسجد میں القاعدہ اورعراق میں دہشت گردی پھیلانے والے عناصر کے خلاف زوردار انداز میں تقاریر کرنے میں شہرت رکھتے ہیں۔ سکیورٹی حکام کے مطابق سمارائی اصل میں خود کش بمبار کا نشانہ تھے لیکن وہ معجزانہ طور پر اس دھماکے میں بچ گئے۔
سمارائی القاعدہ مخالف تنظیم سہاوہ کونسل کے بانیوں میں سے ہیں۔ اسی کونسل میں عراق کے سنی قبائل کے لیڈران بھی شامل ہیں۔ اس تنظیم نے سن 2006 میں قیام کے بعد امریکی فوج کے ساتھ مل کر عراق دشمن قوتوں کے خلاف عملی کارروائیوں میں حصہ لینا شروع کیا تھا۔
وسطِ اگست سے عراق کے طول و عرض میں امن و سلامتی کی صورت حال ایک مرتبہ پھر خطرناک ہونے لگی ہے۔ القاعدہ کے سرگرم گروپ نے بغداد حکومت کو نئے حملوں کی مناسبت سے متنبہ بھی کیا تھا۔ یہ انتباہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے دیا گیا تھا۔ القاعدہ کے گروپ نے کہا تھا کہ وہ بدلے میں عراق میں ایک سو بم دھماکے کریں گے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: ندیم گِل