1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ایشیا میں بھاری مانگ، پیرو میں شارک کی بقا کو خطرہ لاحق

2 جولائی 2023

شارک فن سے بنا سوپ ایشیائی ممالک میں ایک مرغوب اور مہنگی غذا ہے، جو پیرو میں اس مچھلی کے شکار کی بڑی وجہ ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر غیر قانونی شکار پر پابندی عائد نہ کی گئی تو شارک معدومیت کا شکار ہو سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4SCxL
Indonesien Haiflossen
تصویر: Hotli Simanjuntak/dpa/picture alliance

شمالی پیرو کے ایک بازار میں ماہی گیر اور تاجر ٹکڑوں میں بٹی شارک مچھلیوں کا سودا کرنے کے بعد انہیں رکشوں پر لاد رہے ہیں۔ اس میں سے زیادہ ترکا گوشت مقامی طور پر کھایا جائے گا، لیکن ان کے پنکھ  کہیں اور یعنی چین بھجوائے جاتے ہیں۔

شارک اور ریز مچھلی کی چار سو سے زائد اقسام معدوم ہو سکتی ہیں

شارک فن سوپ

سمندری حیات کے تحفظ کی ایک غیر سرکاری تنظیم اوشیانا کے مطابق پیرو دنیا میں شارک کے پنکھوں کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے۔ یہاں شکار کی جانے والی شارک  کے پنکھ عام طور پر ایشیا بھجوائےجاتے ہیں، جہاں شارک فن کا سوپ ایک ایسا پکوان  ہے، جس کی قیمت دو سو امریکی ڈالر سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے۔ سمندری حیاتیات کے ماہرین کے مطابق یہ منافع بخش تجارت پیرو اور ہمسایہ ملک ایکواڈور کے ساحلوں پر شارک کی نسلوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔

پراسرار گرین لینڈ شارک کو لاحق نئے خطرات

Thailand Phi Phi Leh Insel | Haie als Touristenattraktion
شارک مچھلی کے پنکھوں سے بننے والا سوپ ایشیائی ممالک خاص طور پر چین میں ایک انتہائی مرغوب اور مہنگی سوغات ہےتصویر: JORGE SILVA/REUTERS

صرف ایک دہائی سے زائد عرصے میں پیرو نے شارک کے پنکھوں کی برآمدات میں تقریباً تین گنا اضافہ کر دیا ہے۔ اوشیانا کی طرف سے مہیا کیے گئے اعدادوشمار کے مطابق سن دو ہزار اکیس میں پیرو میں قانونی اور غیر قانونی طور پر حاصل کیے جانے والے شارک کے پنکھوں کی تعداد ریکارڈ 400 ٹن تک پہنچ گئی تھی۔

سنگاپور ایئرلائن کے ذریعے ہانگ کانگ شارک کے پروں کی اسمگلنگ

غیر قانونی اسمگلنگ 

تاہم اس تجارت کی سخت عالمی جانچ پڑتال کے نتیجے میں گزشتہ سال یعنی  سن دو ہزار تئیس میں تجارت کا یہ حجم کم ہو کر تقریباً 339 ٹن تک پہنچ گیا۔ پیرو میں قانونی طور پر شکار کی گئی  شارک کے پنکھوں کی ماہی گیری اور فروخت کی اجازت ہے۔ لیکن ایکواڈور کے ساحل پر شارک کی بہت بڑی آبادی کے باوجود  اس طرح کی سرگرمی غیر قانونی ہے۔

اوشیانا میں پیرو کی سمندری حیاتیات اور شارک کی ماہر ایلیسیا کوروئیوا نے کہا کہ پیرو سے برآمد ہونے والے تین چوتھائی پنکھ ایکواڈور سے آتے ہیں اور انہیں ریفریجریٹڈ ٹرکوں میں غیر قانونی طور پر سرحد پار اسمگل کیا جاتا ہے۔

شارک کے پروں کا سوپ، آبی حیات کے لیے خطرہ بنتا ہوا

 بہت سے لوگ پیرو کے سرحدی شہر ٹمبس پہنچتے ہیں، جہاں شارک کے گوشت اور پنکھوں کی ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ ماہی گیر دعویٰ کر سکتے ہیں کہ غیر ارادی طور پر  شارک ان کے جال میں پکڑی گئیں تھیں، اس کے بعد شارک کو فروخت کیا جا سکتا ہے۔

پیرو کی وزارت ماحولیات کے ایک نمائندے نے مزید کوئی تبصرہ کیے بغیر کہا کہ ان کے پاس شارک فن کی برآمدات کے بارے میں فوری طور پر تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔

Thailand Phi Phi Leh Insel | Haie als Touristenattraktion
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے بھی شارک کی کئی ایک اقسام معدومی کے خطرے سے دوچار ہیںتصویر: JORGE SILVA/REUTERS

موسمیاتی تبدیلیاں

میرین بائیولوجسٹ ایڈریانا گوانزالیس نے کہا کہ پیرو اور ایکواڈور سے اندھا دھند ماہی گیری بلیو شارک، ماکو شارک اور ہیمر ہیڈ شارک سمیت اس سمندری مخلوق کی دیگر انواع اقسام کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔ ''ٹولو‘‘ کے نام سے شارک کی مختلف اقسام کو مقامی طور پر پیرو کی مشہور سیویچے ڈش میں باقاعدگی سے کھایا جاتا ہے۔ تاہم پنکھوں کو کاٹ کر ایشیا برآمد کیا جاتا ہے۔

گوانزالیس نے کہا، ''چینی تمام بازاروں میں (شارک کے پنکھ) تلاش کر رہے ہیں کیونکہ وہ خود سپلائی نہیں کر سکتے اور پیرو پنکھوں کے لیے بہت مضبوط تجارتی گڑھ  ہے۔‘‘گزشتہ سال نومبر میں معدومی کے خطرے سے دوچار مخلوقات کی تجارت سے متعلق ایک عالمی کنونشن نے ریکیئم شارک کی تجارت کے ضوابط میں اضافے پر اتفاق کیا۔

 ریکیئم ، بنیادی طور پر سوپ میں استعمال ہونے والے پنکھوں کے لیے پکڑی جانے والی شارک کی قسم ہے۔ ٹومبس میں ماہی گیری کے شہر زوریٹوس  میں شارک  کے شکار سے روزی کمانے والے مچھیروں کو ایک اور پریشانی لاحق ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں کا ایک نتیجہ ماہی گیری کے میدانوں میں شارک کی تعداد میں کمی بھی ہے۔ ایک ماہی گیر ایڈگارڈو کروز کے مطابق، ''وہ (شارک) اس حقیقت کی وجہ سے غائب رہی ہیں کہ پانی دوبارہ گرم ہو گیا ہے۔‘‘

ش ر⁄ ع ت (روئٹرز)

انسان شارک مچھلیوں کی مرغوب غذا نہیں