امریکی وزیر دفاع جنوبی کوریا میں
30 ستمبر 2013امریکی وزیر دفاع چک ہیگل نے کہا ہے کہ گو کہ امریکی افواج کے بجٹ میں کمی کی جا رہی ہے، پھر بھی اس کا جنوبی کوریا میں تعینات اپنی ساڑھے اٹھائیس ہزار افواج کی تعداد میں کمی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔
چک ہیگل جنوبی کوریا کے دورے پر ہیں۔ انہوں نے پیر کے روز جنوبی کوریا کے ’غیر فوجی علاقے‘ کا دورہ کیا۔ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان گو کہ حالیہ کچھ ہفتوں میں کشیدگی میں کمی واقع ہوئی ہے تاہم ماہرین کے مطابق اس صورت حال میں کسی بھی وقت تبدیلی آ سکتی ہے۔
امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا، ’’یہ غالباً ایک ایسی جگہ ہے جہاں کسی بھی وقت جنگ چھڑ سکتی ہے۔‘‘
ہیگل جنوبی کوریا کا یہ چار روزہ دورہ ایک ایسے وقت کر رہے ہیں جب سیول اور واشنگٹن کے عسکری اتحاد کے ساٹھ سال پورے ہو رہے ہیں۔ اس دورے میں ہیگل امریکا اور جنوبی کوریا کے فوجی اتحاد کے مستقبل کے حوالے سے جنوبی کوریا کی عسکری اور سولین قیادت سے بات چیت کریں گے۔ خیال رہے کہ جنوبی کوریا کے دفاع کی ذمہ داری امریکا نے اٹھائی ہوئی ہے۔ سن دو ہزار بارہ میں یہ کمان جنوبی کوریا کی عسکری قیادت کو سونپی جانی تھی تاہم شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے اس کو سن دو ہزار پندرہ تک امریکا ہی کے پاس رہنے کی منظوری دی گئی۔ دفاعی امور کے ماہرین کے مطابق ہیگل اس دورے میں یہ کوشش کریں گے کہ یہ کمان امریکا کے پاس دو ہزار پندرہ کے بعد بھی رہے۔
ہیگل نے جنوبی کوریا میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ امریکا پر دباؤ ہے کہ وہ اپنے فوجی اخراجات میں کمی کرے تاہم اس کے باوجود اس کا جنوبی کوریا میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں کمی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔ ہیگل کا یہ بھی کہنا تھا کہ امریکی صدر نے افغانستان میں جنگ کے اختتام پر اپنی توجہ ایشیا پیسیفک کے علاقے پر مرکوز کی ہے۔
ہیگل نے شام کی صورت حال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پیانگ یانگ کو اس سے سبق سیکھنا چاہیے۔’’یہ واضح ہے کہ شمالی کوریا شام کی صورت حال کو دیکھ رہا ہے، خاص طور پر اس کو جو گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ میں ہوا۔ کیمیائی ہتھیار رکھنے والے ممالک دیکھ سکتے ہیں کہ بین اقوامی براداری کس طرح ان سے نمٹ سکتی ہے۔‘‘