امریکا کی جانب سے کوبانی کے لیے ترک فیصلے کا خیرمقدم
21 اکتوبر 2014امریکا کا کہنا ہے کہ ترکی کی جانب سے کوبانی کو جہادیوں سے بچانے کے لیے عراقی کرد فائٹرز کو سرحد پار کرنے کی اجازت دے کر انقرہ حکومت نے اپنی پالیسی تبدیل کی ہے جو ایک خوش آئند بات ہے۔
قبل ازیں ترکی نے اعلان کیا تھا کہ عراقی کرد فائٹرز کو کوبانی میں داخلے کا راستہ دیا جائے گا تاکہ وہ شام کے سرحدی علاقے میں جہادیوں کے خلاف لڑ سکیں۔ تاہم انقرہ حکام نے آئی ایس کے خلاف فضائی حملے کرنے والے عالمی اتحاد میں شرکت کی بات نہیں کی ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان میری ہیرف نے پیر کو صحافیوں سے بات چیت میں کہا: ’’ہم وزارتِ خارجہ (ترکی کی) کے ان بیانات کا خیر مقدم کرتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا: ’’میرے خیال میں جیسے کہ ہم سب دیکھ چکے ہیں کہ آئی ایس آئی ایل (اسلامی اسٹیٹ) نے مزید وسائل جمع کیے ہیں، کوبانی کے لیے مزید جہادی بھیجے ہیں، صورتِ حال مزید گھمبیر ہو گئی ہے۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ترکی مزید کِن ذرائع سے شدت پسندوں کے خلاف امریکی قیادت میں لڑنے والے اتحاد کی مدد کر سکتا ہے، اس حوالے سے ترکی کے ساتھ بات چیت جاری ہے۔
وائٹ ہاؤس نے اس سے پہلے بتایا تھا کہ صدر باراک اوباما نے اپنے ترک ہم منصب رجب طیب ایردوآن سے بات کی ہے اور ان دونوں نے شام میں آئی ایس کے خلاف ’تعاون مستحکم‘ کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
امریکی صدر قبل ازیں کہہ چکے ہیں کہ اتحادیوں کے ساتھ مل کر جہادیوں پر حملے جاری ہیں اور یہ بدستور ایک مشکل مشن ہے۔ باراک اوباما نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا کہ تھا کہ یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں جو راتوں رات حل ہو جائے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آئی ایس دنیا کے امن کے لیے خطرہ ہے اور محض متاثرہ خطے میں ہی نہیں، بلکہ اس بارے میں وسیع تر اتفاق پایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اس گروہ کے ظالمانہ رویوں پر قابو پانے کے لیے سب تیار ہیں۔
اُدھر کوبانی میں کرد محافظوں اور جہادیوں کے درمیان لڑائی کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ اس کے ساتھ ہی فضائی حملے بھی تسلسل سے ہو رہے ہیں تاہم کوئی بڑی پیش رفت سامنے نہیں آئی۔ تاہم ایسی خبریں سامنے آ رہی ہیں کرد فائٹر سخت مزاحمت کر رہے ہیں اور جہادیوں کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔