آئی ایس کے خلاف جرمنی میں ہزاروں کردوں کے مظاہرے
19 اکتوبر 2014برلن سے آمدہ رپورٹوں کے مطابق ان مظاہروں کے دوران جرمنی میں رہائش پذیر کرد نسل کے باشندوں نے اسلامک اسٹیٹ یا آئی ایس، جسے ISIL یا عربی میں داعش بھی کہا جاتا ہے، کے جنگجوؤں کی طرف سے شام اور عراق میں کی جانے والی بربریت کی بھی مذمت کی۔
ان مظاہروں کے دوران جرمنی کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر بیلےفیلڈ میں کیے جانے والے مظاہرے میں دو ہزار کے قریب کردوں نے حصہ لیا۔ پولیس کے مطابق اسلامک اسٹیٹ کی دہشت گردی کے خلاف وفاقی جرمن دارالحکومت برلن میں کرد مظاہرین کی تعداد ایک ہزار کے قریب رہی جبکہ دیگر جرمن شہروں میں اہتمام کردہ احتجاجی مظاہروں میں سے فرینکفرٹ منعقدہ ریلی کے شرکاء کی تعداد ڈیڑھ ہزار اور کاسل میں بھی قریب اتنی ہی رہی۔
ان مظاہروں کے علاوہ جرمنی میں کرد باشندوں نے جن وفاقی جرمن صوبوں کے کئی دیگر چھوٹے شہروں میں بھی بہت سی احتجاجی ریلیوں کا اہتمام کیا، ان میں جنوبی ریاستیں باویریا اور باڈن ورٹیمبرگ اور شمالی ریاست شلیسوگ ہولشٹائن خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
جرمن پولیس کے مطابق شام اور عراق میں دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے خلاف جرمنی میں کردوں کے یہ بہت سے احتجاجی مظاہرے زیادہ تر پرامن رہے لیکن قانون نافذ کرنے والے جرمن اداروں کے اہلکار اس موقع پر پوری طرح چوکنا تھے۔
اس کا سبب یہ خدشات تھے کہ ان کرد مظاہرین اور جرمنی میں اسلامک اسٹیٹ کے مقامی ہمدردوں کے درمیان ایک بار پھر چھڑپیں ہو سکتی تھیں۔ اس سے پہلے گزشتہ چند ہفتوں کے دوران ایسے ہی احتجاجی مظاہروں کے موقع پر جرمنی کے چند شہروں میں کرد احتجاجی کارکنوں اور آئی ایس کے چند جرمن حامیوں کے مابین باقاعدہ جھڑپیں دیکھنے میں آئی تھیں۔
آج اتوار کے دن کے مظاہروں کے دوران واحد ناخوشگوار واقعات برلن میں مظاہرے کے موقع پر دیکھے گئے۔ جرمن دارالحکومت میں پولیس اہلکاروں اور کرد مظاہرین کے ایک گروپ کے درمیان معمولی جھڑپیں ہوئیں،جس دوران چند مظاہرین نے موقع پر موجود پولیس اہلکاروں پر کالی مرچوں والے سپرے اور ڈنڈوں سے حملہ کر دیا۔ ان واقعات کے نتیجے میں 32 پولیس اہلکار معمولی زخمی ہوئے جبکہ مظاہرین نے چند املاک کو بھی کچھ نقصان پہنچایا۔
جرمنی میں آباد کرد نسل کے باشندوں کی مجموعی آبادی اندازہﹰ قریب آٹھ لاکھ بنتی ہے۔ یہ کرد باشندے گزشتہ کئی ہفتوں سے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں، جن کا مقصد عالمی برادری کی توجہ شمالی شام میں کرد آبادی والے قصبے کوبانی یا عین العرب کی صورت حال کی طرف مبذول کرنا ہے۔
اسلامک اسٹیٹ کے مسلح جنگجوؤں نے قریب پانچ ہفتوں سے ترک سرحد کے قریب واقع کوبانی کا محاصرہ کر رکھا ہے اور ان کی اس شہر کا دفاع کرنے والے کرد فائٹرز کے ساتھ شدید جھڑپیں ابھی تک جاری ہیں۔ کوبانی شہر کے آئی ایس کے عسکریت پسندوں کے زیر قبضہ حصوں پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے فضائی حملے بھی کیے جا رہے ہیں۔ کوبانی پر قبضے کی جنگ میں اب تک سینکڑوں افراد مارے جا چکے ہیں۔