امریکا، رواں برس میں تین سو پچاسی افراد پولیس شوٹنگ سے ہلاک
31 مئی 2015اس بارے میں وفاقی حکومت کی طرف سے گزشتہ دہائی میں اس شرح کے بارے میں جو سرکاری اعداد و شمار سامنے آئے تھے، وہ اخبار واشنگٹن پوسٹ کے مطابق غیر مکمل تھے کیونکہ تازہ ترین اعدا و شمار بتاتے ہیں کہ یومیہ بنیادوں پر پولیس کی گولیوں سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد سرکاری اعداد و شمار سے دو گنا ہے۔
واشنگٹن پوسٹ کا جائزہ اُس ڈیٹا پر مبنی ہے، جس میں 2015 ء میں پولیس کی ہر مہلک شوٹنگ کو شامل کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ مسلح جھڑپوں میں ہلاک ہونے والے پولیس اہلکاروں کے اعداد و شمار بھی اس ڈیٹا میں شامل کیے گئے ہیں۔ ’پولیس فاؤنڈیشن‘ امریکا کی ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے، جس نے نفاذ قانون کے عمل کو بہتر بنانے کے لیے خود کو وقف کر رکھا ہے۔ اس تنظیم کے صدر ’جم بوئبرمن‘ کہتے ہیں،’’ اگر ہم نے درست معلومات کو اکھٹا کرنا شروع نہیں کیا تو ہم کبھی بھی پولیس کی شوٹنگ کے واقعات میں کمی نہیں لا سکیں گے‘‘۔
واشنگٹن پوسٹ کا یہ جائزہ ایک ایسے وقت میں منظر عام پر آیا ہے، جب امریکا میں قومی سطح پر پولیس کی طرف سے اپنی طاقت کے ناجائز استعمال اور اُس کے ذریعے شہریوں کی ہلاکت کے واقعات میں اضافے کے بارے میں بہت زیادہ بحث ہو رہی۔
وفاقی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کے گزشتہ دہائیوں کے ریکارڈز سے اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا میں ایک سال کے اندر پولیس کی مہلک فائرنگ کے 400 واقعات رونما ہوتے ہیں۔ اس طرح روزانہ ایک سے زیادہ شخص پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہوتا ہے جبکہ پولیس کی شوٹنگ کے بارے میں پولیس ایجنسیوں کی رپورٹنگ رضا کارانہ ہوتی ہے۔
اس کے برعکس واشنگٹن پوسٹ کا جائزہ بتاتا ہے کہ 2015 ء میں اب تک روزانہ پولیس کی گولیوں سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 2.6 بنتی ہے۔ اس اخبار کے مطابق اگر پولیس کی اس کارروائی کی رفتار یہی رہی تو سال رواں کے آخر تک 1000 افراد پولیس کی گولیوں کا شکار ہو کر ہلاک ہو جائیں گے۔
واشنگٹن پوسٹ کے جائزے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پولیس شوٹنگ کے نتیجے میں لقمہ اجل بننے والے افراد میں سے نصف سفید فام اور نصف کا تعلق اقلیتوں سے تھا۔ پولیس کی شوٹنگ کے شکار ہو کر مرنے والے غیر مسلح افراد میں سے دو تہائی ہسپانوی نژاد یا سیاہ فام باشندے تھے۔
اُن علاقوں میں جہاں پولیس کی شوٹنگ کے نتیجے میں ہلاکتیں ہوئیں وہاں کی تعداد کے اعتبار سے سفید فام یا دیگر اقلیتوں سے تعلق رکھنے والوں کے مقابلے میں پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے سیاہ فام باشندوں کی تعداد تین گنا زیادہ بنتی ہے۔ اس زیادتی کے شکار افراد کی عمریں 16 سے 83 کے درمیان بتائی جاتی ہیں۔ ان میں سے 80 فیصد کی تحویل میں ممکنہ طور پر مہلک ہتھیار تھے جبکہ 92 ایسے افراد بھی پولیس کی گولیوں کا نشانہ بنے جو ذہنی مریض تھے۔