سیاہ فام نوجوان پر فائرنگ کرنے والا پولیس افسر مستعفی
30 نومبر 2014فرگوسن شہر میں رواں برس نو اگست کو 18 سالہ سیاہ فام نوجوان مائیکل براؤن پولیس کی فائرنگ کے نتیجے میں ہلاک ہو گیا تھا۔ اس غیر مسلح نوجوان کی ہلاکت کے بعد فرگوسن میں پر تشدد مظاہرے کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ امریکا کے دیگر شہروں میں بھی احتجاج کیا گیا۔
براؤن پر فائرنگ کرنے والے فرگوسن پولیس کے افسر ڈین وِلسن کی طرف سے یہ استعفیٰ نوجوان کی ہلاکت کے واقعے کے قریب چار ماہ بعد سامنے آیا ہے۔ ایک ہفتہ قبل ہی امریکا کی گرینڈ جیوری نے فیصلہ دیا تھا کہ وِلسن نے اپنے دفاع میں فائرنگ کی تھی لہذا اس کے خلاف کریمنل چارجز نہیں لگائے جا سکتے۔
ایک سفید فام پولیس افسر کی فائرنگ کے نتیجے میں سیاہ فام نوجوان کی ہلاکت کے بعد امریکا بھر میں نسل پرستی اور پولیس کی جانب سے طاقت کے بے جا استعمال کے حوالے سے بحث کا آغاز ہو گیا تھا۔
پولیس ڈیپارٹمنٹ کو بھیجے گئے خط میں سفید فام پولیس افسر ڈیرن وِلسن کا کہنا تھا کہ وہ تحفظ سے متعلق خدشات کے باعث اپنے عہدے سے استعفیٰ دے رہا ہے۔ ایک مقامی اخبار میں چھپنے والے اس خط میں 28 سالہ ولسن نے امید ظاہر کی ہے کہ اس کے استعفے سے متاثرہ کمیونٹی کے زخم مندمل ہونے میں مدد ملے گی۔
ولسن کے وکیل نیل برنٹریگر (Neil Bruntrager) نے وِلسن کے استعفے کی تصدیق کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ استعفیٰ فوری طور پر نافذ العمل ہو گا۔
دوسری طرف براؤن کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کرنے والوں نے ہفتے کے روز فرگوسن سے ریاست میسوری کے دارالحکومت جیفرسن تک مارچ کا آغاز کیا ہے۔ یہ مارچ سات دن میں جیفرسن پہنچے گا۔ یہ مارچ سیاہ فام نسل کے حقوق کی ترجمانی کرنے والی ایک تنظیم ’نیشنل ایسوسی ایشن فار دی ایڈوانسمنٹ آف کلرڈ پیپل‘ (NAACP) کی طرف سے شروع کیا گیا ہے۔
NAACP نہ صرف فرگوسن شہر کے پولیس سربراہ کو تبدیل کرنے بلکہ پولیس کی طرف سے اپنائے جانے والے طریقہ کار میں اصلاحات لانے اور نسلی بنیادوں پر لوگوں کو نشانہ بنانے جیسے اقدامات کے خاتمے کو یقینی بنانے کا مطالبہ کر رہی ہے۔