اسرائیل اور فلسطین: دونوں کےموقف میں کوئی لچک نظر نہیں آ رہی
10 اگست 2014اُدھر قاہرہ میں فلسطینی وفد کے سربراہ نے پہلے ہی کہ دیا تھا کہ وہ فائربندی مذاکرات سے نکل جائیں گے اگر اسرائیلی مذاکرات کاروں کا وفد بات چت کے لیے دوبارہ قاہرہ نہیں پہنچتا۔ واضح رہے کہ گزشتہ جمعے کو تین روز فائر بندی ختم ہونے سے چنڈ گھنٹوں پہلے اسرائیلی وفد قاہرہ چھوڑ کر وطن لوٹ گیا تھا۔
دریں اثناء آج اتوار کو بھی اسرائیلی شیلنگ کا نشانہ بننے والے تین فلسطینی ہلاک ہو گئے، جن میں ایک 14 سالہ نوجوان اور ایک خاتون بھی شامل ہیں۔ فلسطینی طبی ذرائع نے ان ہلاکتوں کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی برادی کی طرف سے ایک ماہ سے زائد عرصے سے جاری اس جنگ کے خاتمے کی حالیہ کوششوں کے باوجود اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین جھڑپوں کا تازہ ترین سلسلے آج اتوار کو تیسرے روز میں داخل ہو گیا ہے۔
فائر بندی کی آخری میعاد پورا ہونے کے بعد فلسطینی علاقے سے فائر کیے جانے والے راکٹوں اور مارٹر گولوں کا نشانہ اسرائیلیوں کے اجتماعی فارمز بنے ہیں۔ بظاہر یہ حماس کی ایک حکمت عملی ہے، جس کے تحت وہ اسرائیل کو ذہنی اور اخلاقی طور پر دھچکا لگانا چاہتے ہیں قبل اس کے کہ تل ابیب کی طرف سے غزہ پٹی کے چھوٹے سے علاقے پر ممکنہ طور پر ایک نیا زمینی حملہ شروع ہو۔
تل ابیب میں اپنی کابینہ سے تازہ ترین خطاب میں اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا کہنا تھا، ’’اسرائیل حملوں کے دوران مذاکرات کی طرف کسی صورت نہیں لوٹے گا۔ ہم نے یہ کبھی نہیں کہا کہ اسرائیلی فوجی آپریشن ختم ہو گیا ہے۔ یہ آپریشن اپنے مقاصد کے حصول تک جاری رہے گا۔ یعنی ایک ہتھیاروں کی خاموشی تک ہماری فوجی کارروائیاں جاری رہیں گی۔‘‘ نیتن یاہو کا یہ بھی ہے کہنا تھا کہ اس عمل میں وقت لگے گا اور اس کے لیے بہت قوت وبرداشت چاہیے۔
اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے دونوں فریقوں سے کہا کہ وہ انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کا احترام کریں اورقاہرہ میں دوبارہ مذاکرات کی میز پر اکھٹے ہوں۔
گزشتہ ایک ماہ سے جاری جنگ میں قریب دو ہزار جانیں ضائع ہو چُکی ہیں۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ انہوں نے 900 فلسطینی شدت پسندوں کو ہلاک کیا ہے جبکہ اقوامِ متحدہ کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں 1354 افراد عام شہری تھے، جن میں 415 بچے اور 214 عورتیں شامل ہیں۔ گزشتہ جمعرات کو انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا تھا کہ اسرائیلی فوج کی طرف سے ہسپتال اور امدادی ٹیموں پر جان بوجھ کر حملے کیے گئے ہیں اور ان کی تفتیش ہونی چاہیے۔