2025ء میں عالمی معیشت کو کن چیلنجز کا سامنا رہے گا؟
28 دسمبر 2024ڈونلڈ ٹرمپ: دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے نو منتخب صدر
امکان ہے کہ 2025 اور اس کے بعد بھی امریکہ کی معیشت دنیا کی رہنمائی کرنے والی قوتوں میں سے ایک رہے گی۔ یہ سب فی الحال ایک ہی شخص کے ہاتھ میں ہے، ڈونلڈ ٹرمپ، دنیا کی سب سے بڑی معیشت کے نومنتخب صدر۔
ٹرمپ کی نام نہاد امریکہ فرسٹ کی پالیسی ملکی سرحدوں کو پھلانگ کر آگے تک پہنچ جائے گی۔ ٹرمپ کی خواہشات عالمی نظام کو نئے سرے سے ڈھالیں گی۔ خوشحالی، عالمگیریت اور دنیا میں جاری جنگوں کا فیصلہ بڑی حد تک واشنگٹن ڈی سی میں کیا جائے گا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ نیا کیا ہے؟ غیر یقینی صورتحال اور افراتفری کی وہ سطح، جو اس طرح کے فیصلوں کو گھیر ے میں لے سکتی ہے۔
ٹرمپ نے بین الاقوامی تعاون کو ایک سوالیہ نشان قرار دیا ہے۔ ساتھ ہی اتحادیوں اور نیٹو کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ نئے تجارتی روابط اور خود پر توجہ مرکوز کیے امریکی پالیسیاں چند غیر ارادی نتائج کا سبب بنیں گی۔ امریکی قیادت کی جانب سے واضح اقدامات کا فقدان چین، بھارت اور روس جیسے ممالک کے لیے عسکری، سیاسی اور اقتصادی خلا کو پُر کرنے کے لیے راہیں ہموار کر سکتا ہے۔
ٹیکس، تجارتی جنگیں اور قیمتوں میں اضافہ
کاروباری افراد مستقبل کی منصوبہ بندی کرنا پسند کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ٹیکسوں میں اضافے کا خطرہ ان کے لیے بہت پریشان کن ہے۔ ٹرمپ امریکہ کے تجارتی خسارے میں کمی اور دیگر ممالک کو سزا دینے کے لیے ٹیرف کے نفاز کے خیال کی تعریف کرتے ہیں۔ انہوں نے اکتوبر میں کہا تھا، "ٹیرف" ڈکشنری میں موجود سب سے خوبصورت لفظ ہے۔
2024 کی انتخابی مہم کے دوران، ٹرمپ نے صدر منتخب ہوتے ہی امریکہ میں درآمد ہونے والی تمام اشیا پر 20 فیصد اور چینی سامان پر 60 فیصد تک ٹیکس لاگو کرنے کی دھمکی دی تھی۔
ابھی حال ہی میں نو منتخب امریکی صدر نے میکسیکو اور کینیڈا کے تمام سامان پر بھی 25 فیصد ٹیرف لگانے کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔تاہم میکسیکو بھی جوابی ٹیرف لگانے کو تیار بیٹھا ہے۔ چین بھی ایسا کر سکتا ہے۔ کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اس سارے معاملے سے بچنے کی کوشش میں فلوریڈا میں ٹرمپ سے ملاقات کی۔
عالمی سپلائی چین کا حصہ رہنے والے کاروباروں کے لیے ٹیرف میں اضافہ بری خبر ہو گی۔ ٹیکسوں میں یہ اضافہ امریکہ کے پڑوسی ممالک کو نقصان پہنچائے گا اور ٹرمپ کے پہلے دور اقتدار میں طہ پانے والا امریکہ-میکسیکو-کینیڈا اگریمنٹ (یو ایس ایم سی اے)، جو ان تینوں ممالک کے مابین ایک تجارتی معاہدہ ہے، ممکنہ طور پر ختم ہو سکتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ میکسیکو کی تقریباً 80 فیصد اور کینیڈا کی 75 فیصد سے زائد برآمدات امریکہ کو جاتی ہیں۔ پھلوں اور سبزیوں کی امریکہ کی نصف سے زیادہ درآمد میکسیکو سے آتی ہے۔ امریکہ کینیڈا سے روزانہ لکڑی اور لاکھوں بیرل خام تیل درآمد کرتا ہے۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ ٹرمپ ٹیرف کو مذاکراتی حربے کے طور پر اپنا رہے ہیں تاہم امریکہ کی اس ٹیرف وار میں نقصان امریکی خریدار کا ہوگا جسے مہنگی اشیا خریدنا پڑیں گی، ساتھ یہ بھی امکان ہے کہ اس سب میں عالمی تجارتی جنگ کا آغاز قریب تر ہوجائے گا۔
دنیا کو 'غیر معمولی ہجرت‘ کا سامنا
عالمی سطح پر نقل مکانی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ دنیا بھر میں رہنما تارکین وطن پر سخت قوانین لاگو کرتے ہوئے یہ بات ظاہر کرنے کی ضرورت محسوس کر رہے ہیں کہ وہ اپنی سرحدوں پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔
2024 کی امریکی انتخابی مہم کے دوران ریپلکنز نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ اب تک کی سب سے بڑی 'ملک بدری کی مہم‘ چلائیں گے۔ ظاہر ہے یہ خیال بھی کسی اور کا نہیں بلکہ ٹرمپ کا ہی تھا۔ ملک بدری اور میکسیکو کے ساتھ سرحد پر سخت کارروائی کے علاوہ، ٹرمپ نے دسمبر کے اوائل میں اپنے ایک انٹرویو میں اس عزم کا اظہار بھی کیا تھا کہ وہ امریکہ میں پیدا ہونے والے ہر شخص کے لیے خودکار شہریت ختم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
غیر قانونی مہاجرت کی بات پر امریکی صدر کے پاس بہت زیادہ اختیارات ہیں۔ لیکن ان کی زیادہ تر تجاویز عدالت میں چیلنج کی جاسکتی ہیں۔ ان کے پاس پناہ گزینوں کی تعداد کو محدود کرنے، ویزا یا گرین کارڈ حاصل کرنا مشکل بنا کر قانونی امیگریشن کو ختم کرنے کا بھی اختیار موجود ہے۔
لیکن تارکین وطن کو واپس بھیجنے کا مطلب ملکی لیبر مارکیٹ میں افرادی قوت کی کمی پیدا کرنا ہے، جس کا اثر ہر شعبے پر پڑے گا۔
میکسیکو کی سرحد پر سخت نگرانی کا اثر لاطینی امریکہ پر واضح طور پر پڑے گا۔ خاص طور پر کیوبا، ہیٹی اور وینزویلا جیسے ممالک اس سے شدید متاثر ہوں گے۔
لیکن بے ضابطہ امیگریشن کے معاملے میں امریکہ اکیلا نہیں ہے۔ یورپی یونین نے غیر قانونی ہجرت کو روکنے کا عزم کیا ہے۔ جرمنی کے آئندہ انتخابات میں امیگریشن ایک ایسا بڑا معاملہ ہے، جو زیر بحث رہے گا۔
جنگیں جو یورپ اور مشرق وسطیٰ سے آگے نکل گئیں
2025 میں ہم اکیلے قدم نہیں رکھ رہے بلکہ ساتھ 2024 میں جاری ان تنازعات کو بھی لے کر جارہے ہیں، جن سے اب تک ناقابل تلافی مالی اور جانی نقصان ہوا ہے۔ وہ پیسے جو ترقیاتی کاموں پر خرچ کیے جاسکتے تھے ان کی نظر ہوگئے۔
ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ وہ 24 گھنٹوں میں یوکرین اور روس کے درمیان جاری جنگ روک دینے کی طاقت رکھتے ہیں۔ وہ امریکی فنڈز روک دیں گے اور یوکرین کو مزاکرات کے میز پر آنے کے لیے مجبور کر دیں گے۔
حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ غزہ اور حال ہی میں لبنان میں بھی جاری ہے اور مستقبل میں اس میں توسیع ہوتی معلوم ہوتی ہے۔ ایشیا میں، چین تائیوان پر حملہ کرنے کو بےقرار دکھائی دیتا ہے۔
کئی دہائیوں سے، امریکی قیادت نے عالمی پیمانے پر توازن برقرار رکھنے میں مدد کی ہے۔ لیکن ٹرمپ نے اسے سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ اگر امریکہ اتحادیوں کے دفاع سے پیچھے ہٹ جاتا ہے تو کئی دہائیوں کی پالیسیاں خاک ہوجائیں گی۔
اے آئی کا عروج، کیا سچ کیا جھوٹ
2022 نومبر میں اے آئی کے مارکیٹ میں آتے ہی چیٹ جی پی ٹی کو استعمال کرنے والے صارفین کی تعدادچند دنوں میں ہی 100 ملین سے تجاوز کر گئی۔
عام کارکنوں اور کاروباری افراد کی زندگیوں پر اس کا اثر سست روی کا شکار ہے۔ تاہم دوائیاں بنانے والی کمپنیوں اور دفاعی صنعت میں اس کا استعمال بڑے پیمانے پر ہورہا ہے۔ لیکن اس کا استعمال کیسے اور کس حد تک کیا جانا چاہیے یہ ابھی ان کمپنیوں کو طے کرنے کی ضرورت ہے۔
ابھی دیکھنا یہ ہے کہ کیا 2025 ہی وہ سال ہوگا جس میں اے آئی گیم چینجر ثابت ہوگی اور دنیا کو بدل کر رکھ دے گی؟ کم از کم اس کے حامیوں نے تو یہی دعویٰ کیا تھا۔ ان سوالوں کے جوابات کے لیے ابھی کچھ انتظار کریں یا پھر چیٹ جی پی ٹی سے ہی پوچھ لیں۔
ٹیموتھی روکس (ر ب/ ش ر)