کیا داعش افغانستان میں قدم جما رهی ہے؟
9 فروری 2015ملک کے جنوبی صوبے ہلمند سے موصوله اطلاعات کے مطابق خادم اور اس کے چار ساتهی افغانستان متعینہ بین الاقوامی سلامتی کی معاون فورس ISAF کے ایک ڈرون حملے میں مارے گئے ہیں۔ خادم طالبان دور میں کابل اور ہرات کا کور کمانڈر ره چکا تها۔ اس کی ہلاکت کے بارے میں گرچه ہلمند کے پولیس چیف میجر جنرل نبی ملاخیل اور نگران گورنر جان رسول یار دونوں نے ڈرون حملے کا ذکر کیا ہے تاہم خفیه ادارے ملی امنیت (نیشنل ڈائریکٹوریٹ فار سکیورٹی) نے ایک بیان میں دعوی کیا ہے که خادم اور اس کے ساتهی قریب ایک ماه سے انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں تهے اور آج ایک خصوصی آپریشن میں مارے گئے۔
گزشته کچھ عرصے سے افغانستان اور ملحقه پاکستان سے داعش بابت اطلاعات سننے کو مل رہی ہیں لیکن ہنوذ اس ضمن میں دولت الاسلامیه عراق وشام کی مرکزی قیادت کی تصدیق یا پهر ان دو ملکوں میں داعش سے ملحق غیر مقامی عسکریت پسندوں کی فعالیت کے ٹهوس ثبوت منظر عام پر نہیں آئے۔
افغانستان کی فضائیه کے سابق سربراه جنرل عتیق الله امرخیل کے بقول حقیقت میں ان دونوں ممالک میں پہلے سے موجود عسکریت پسند داعش کا نام استعمال کرکے خوف پهیلارہے ہیں اور یوں اپنے مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں:’’افغانستان میں کچه طالبان کمانڈروں نے سابقه وفاداریاں ترک کر کے نئے گروپس بنا لیے ہیں، طالبان کے سفید جهنڈے کو چهوڑ کر داعش کا سیاه پرچم اور سیاه پگڑیاں پہن لی ہیں۔‘‘
امرخیل کے بقول اب افغان فوج ماضی قریب کے مقابلے میں خاصی بہتر ہے اور سرحدوں کو منظم انداز میں سنبهال رکھا ہے، لہٰذا داعش کے لشکروں کی یہاں آمد کے امکانات نہیں ہیں:’’ایک بات البته وثوق سے نہیں کہی جا سکتی ہے که غالب قوتوں (امریکا / مغرب) کی اس خطے بابت طویل المدتی پالیسی کیا ہے؟ کیا وه ان عسکریت پسندوں کو افغانستان کے راستے مثال کے طور پر روس یا چین کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں، اس بارے میں وقت ہی فیصله کرے گا۔‘‘
داعش کے ساته وفاداری کا اعلان کرنے والے عبدالرؤف خادم کے بارے میں کہا جاتا ہے که اس نے گوانتاناموبے جیل میں وقت گزارنے کے بعد سلفی عقیده اپنا لیا تھا اور اس کے مقامی طالبان کے ساتھ اختلافات بهی چل رہے تهے۔
ہلمند کے علاوه غزنی، لوگر، فراه اور لوگر صوبوں سے بهی ’’سیاه پرچم‘‘ والے عسکریت پسند گروہوں کی موجودگی کی اطلاعات گزشته کچه عرصے سے آرہی تهیں۔ ان صوبوں کی مقامی انتظامیه ان عسکریت پسندوں کو داعش کا نام دے رہی تهی جبکه عسکری قیادت انهیں طالبان سے الگ هونے والے گروه قرار دے رہی ہے۔
کئی افغانوں کی طرح مقامی صحافی مطیع الله اباسین کو بهی اس ضمن میں تشویش لاحق ہے۔ ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی گفتگو میں اباسین نے کہا که اب افغانستان کے قدرے پرامن شمالی علاقوں میں ماضی کی نسبت بدامنی میں اضافه ہوا ہے، جو ان کے بقول اس بات کا ثبوت ہے که طالبان یا داعش وسطی ایشیا کے راستے روس اور چین کی چانب پیش قدمی کی ٹهانے ہوئے هیں۔
گزشته برس ستمبر میں قیادت سنبهالنے والے افغان صدر اشرف غنی کے پاکستان کے ساتھ روابط اس ضمن میں ایک نئے پہلو کو جنم دیتے هیں۔ تجزیه نگار داؤد مرادیان کے بقول چین نے افغان طالبان اور کابل حکومت کے مابین امن مذاکرات کی بحالی میں جو دلچسپی ظاہر کی ہے، اس کے پیچهے بهی دراصل اسی نوعیت کے خدشات ہیں۔ مرادیان کے بقول خطے کی سلامتی کے لیے بیجنگ کی کوششیں پاکستان، افغانستان اور پورے خطے کے لیے خوش آئند بات ہیں۔