نائجیریا میں 150 افراد ہلاک، بوکو حرام نے ذمہ داری قبول کر لی
6 نومبر 2011ابوجہ حکومت کے مطابق بم حملوں اور فائرنگ کی مختلف وارداتوں کے نتیجے میں 53 افراد مارے گئے ہیں۔ صدر گڈ لک جوناتھن نے تشدد کے ان واقعات کی کڑے لفظوں میں مذمت کی ہے۔ صدارتی دفتر سے جاری ہوئے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ان لرزہ خیز حملوں میں ملوث افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ بتایا گیا ہے کہ ان حملوں میں پانچ خودکش حملے بھی شامل تھے۔
خبررساں ادارے اے ایف پی نے ایک حکومتی اہلکار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیڑھ سو لاشوں کو سرد خانے منتقل کیا جا چکا ہے۔ نام نہ ظاہر کرنے والے اس اہلکار نے کہا، ’لاشوں کو سرد خانے منتقل کرنے کے عمل میں میں خود شریک تھا۔ میں نے خود ڈیڑھ سو لاشوں کی گنتی کی ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ کئی ہلاک شدگان کے لواحقین لاشیں لے گئے ہیں تاکہ ان کو دفن کیا جا سکے۔
اے ایف پی کے نمائندے نے بھی 97 لاشوں کے سرد خانے میں موجود ہونے کی تصدیق کی ہے تاہم ریڈ کراس کے مطابق بوکو حرام کی طرف سے کیے گئے سلسلہ وار حملوں کے نتیجے میں 63 افراد مارے گئے ہیں۔ دوسری طرف پولیس کے بقول ہلاک شدگان کی تعداد 53 ہے، جن میں گیارہ پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ مقامی پولیس کے سربراہ سلیمان لاول نے بتایا، ’ہماری اطلاعات کے مطابق 53 افراد ہلاک ہوئے ہیں‘۔
بوکو حرام کے ترجمان عبدل کاکا نے ایک نامعلوم جگہ سے فون کر کے اے ایف پی کو بتایا، ’ہم بورنو اور داماتورہ میں کیے گئے ان حملوں کے ذمہ دار ہیں‘۔ اس نے مزید کہا کہ وہ اس طرح کے حملے اس وقت تک جاری رکھیں گے، جب تک حکومت ان کے ساتھیوں اور شہریوں سے کیا جانے والا امتیازی سلوک ختم نہیں کرتی۔
جمعہ کی رات کیے گئے ان سلسلہ وار حملوں میں پولیس اسٹیشنوں، فوجی اڈوں اور گرجا گھروں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ بوکو حرام نامی اسلامی تحریک مغربی تعلیم اور معاشرت کے خلاف ہے۔ یہ شدت پسند گروپ حکومتی اہلکاروں کو نشانہ بناتا رہتا ہے۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: حماد کیانی