عراق میں پارلیمانی انتخابات کے لیے پولنگ
30 اپریل 2014عراقی وزیراعظم نوری المالکی ان انتخابات کے نتیجے میں تیسری مدت کے لیے اقتدار سنبھالنے کے خواہاں ہیں۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ عراق میں سکیورٹی کی صورتِ حال مسلسل بگڑ رہی ہے۔ پارلیمانی انتخابات کی وجہ سے بھی بدامنی کے واقعات میں اضافے کا خدشہ ظاہر کیا جاتا رہا ہے۔
ملک کے مغربی صوبے انبار میں بھی حالات انتہائی ابتر قرار دیے جا رہے ہیں جہاں سنی انتہاپسند، عراقی فوج اور شیعہ ملیشیا کے خلاف کھڑے ہیں۔
ملکی معیشت بھی گھٹنوں پر ہے جبکہ مالکی کو تنقید کا سامنا ہے کہ وہ سیاسی فائدہ اٹھانے کےلیے فرقہ وارانہ خلیج کو مزید گہرا کر رہے ہیں۔
آج کے انتخابات کے لیے نو ہزار بارہ امیدوار میدان میں ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہ پارلیمانی انتخابات مؤثر طور پر مالکی کے لیے ریفرنڈم کی حیثیت رکھتے ہیں۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق 382 رکنی پارلیمنٹ کے لیے کوئی بھی سیاسی جماعت اکثریت لیتی دکھائی نہیں دیتی۔ یوں توقع کے مطابق مالکی کا اسٹیٹ آف لاء اتحاد سب سے زیادہ نشستیوں پر کامیاب رہا تب بھی حکومت بنانا کافی مشکل ہو گا۔
مالکی نے اسلامی ریاست برائے عراق و شام (آئی ایس آئی ایل)کے خلاف خود کو اپنی شیعہ کمیونٹی کے محافظ کے طور پر پیش کر رکھا ہے۔ رواں ہفتے انہوں نے اعلان کیا تھا کہ وہ القاعدہ سے متاثر آئی ایس آئی ایل کو بغداد میں داخل ہونے سے روکیں گے۔
عراقی وزیر اعظم کا کہنا تھا: ’’کیا آئی ایس آئی ایل اور القاعدہ اس ہدف کو حاصل کرنے کی اہلیت رکھتی ہیں جو انہوں نے مقرر کیا ہے ۔۔۔ یعنی بغداد حکومت اور دیگر صوبوں میں حکومت کو گرانا اور مقدس زیارتوں کو تباہ کرنا؟ ۔۔۔ میں کہتا ہوں کہ نہیں۔‘‘
نوری المالکی کا مزید کہنا تھا: ’’آئی ایس آئی ایل کا قصہ تمام ہو چکا ہے، لیکن یہ کہیں کہیں موجود ہے اور ہم اس کا پیچھا کر رہے ہیں اور آئندہ چند دِنوں میں بڑی پیش رفت سامنے آئے گی۔‘‘
عراقی فورسز گزشتہ چار ماہ سے صوبہ انبار کے شہروں فلوجہ اور رمادی میں شدت پسندوں سے لڑ رہی ہیں۔ فوجیوں نے فلوجہ کا محاصرہ کر رکھا ہے جبکہ رمادی میں لڑائی سڑکوں پر جاری ہے۔ ان علاقوں میں لڑائی کے نتیجے میں چار لاکھ سے زائد شہری بے گھر ہو چکے ہیں۔
عراقی الیکشن حکام کا کہنا ہے کہ وہ انبار کے ستّر فیصد علاقوں میں ہی پولنگ کروانے کے قابل ہوں گے۔