شام: پچاس سے زائد نوعمر فوجی ہلاک
15 جولائی 2015شام کی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والے اس مانیٹرنگ گروپ نے بدھ کو کہا کہ اُس نے 52 ایسے نوعمر فوجیوں کی تفصیلات جمع کی ہیں۔ ان میں سے سب ہی 16 سال سے کم عمر کے بچے ہیں۔ یہ نوعمر بچے دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ کے پروگرام ’’ کبس آف دا کیلیفیٹ‘‘ کا حصہ ہیں۔
سیرین آبزرویٹری کے مطابق آئی ایس کے اس پروگرام کے تحت شام کے اسلامک اسٹیٹ کے قبضے والے تمام علاقوں کے بچوں کو شدید فوجی اور مذہبی تربیت دی جاتی ہے۔ محض جولائی کے مہینے میں شامی حکومت اور امریکی قیادت والی اتحادی فورسز کی طرف سے ہونے والے فضائی حملوں، جھڑپوں اوردھماکوں میں کم از کم 31 ایسے نوعمر فوجیوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔
ان کم عمر فوجیوں کو عسکریت پسندوں کی چوکیوں کی نگرانی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے یا پھر انہیں آئی ایس کے کنٹرول سے باہر کے علاقوں کی مخبری یا جاسوسی جیسے خطرناک کاموں پر مامور کیا جاتا ہے تاہم آبزرویٹری کا کہنا ہے کہ آئی ایس کے جنگجو ان بچوں کو تیزی سے قیدیوں کو پھانسی دینے اور خود کُش بم حملوں کے لیے بھی استعمال کر رہے ہیں۔
رواں برس آئی ایس نے شمال مشرقی عراق میں حالیہ دنوں میں کُرد میلشیا کے ساتھ جھڑپوں کے دوران خود کُش بم حملوں کے لیے 18 نوعمر فوجیوں کو استعمال کیا ہے۔
سیرین آبزرویٹری کے سربراہ رامی عبدالرحمان کے بقول،’’اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ گروپ یا داعش کس طرح شامی باشندوں کا استحصال کر رہا ہے‘‘۔ انہوں نے سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا، ’’جب ایک بچہ خود کُش بمبار بننے کے مقام پر پہنچتا ہے تو یہ اُس بچے کے مکمل برین واش کی نشاندہی ہوتی ہے۔‘‘ آبرویٹری نے کہا ہے کہ اُسے مزید درجنوں بچوں کی ہلاکت کی اطلاعات ملی ہیں تاہم وہ ان ہلاکتوں کی تعداد کی تصدیق نہیں کر پائی ہے۔
2015ء کے اوائل سے اب تک آئی ایس گروپ گیارہ سو بچوں کو بطور فوجی بھرتی کر چُکا ہے۔ آج بُدھ ہی کو ہیومن رائٹس واچ کی طرف سے کُردش پیپلز پروٹیکشن یونٹس YPG جو شام میں آئی ایس کے خلاف نبرد آزما ہے، پر کڑی تنقید کی گئی ہے کیونکہ یہ بچوں کو جنگی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے عمل کو بند کرنے کا اپنا وعدہ پورا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے مطابق گرچہ کُردش پیپلز پروٹیکشن یونٹس YPG جون 2014 ء سے اب تک متعدد بچوں کو فوجی سرگرمیوں سے الگ کر چکا ہے لیکن وہ 18 سال سے کم عمر کے لڑکے لڑکیوں کو اب بھی جنگی مقاصد کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
شامی تنازعہ 2011 ء سے جاری ہے جو حکومت مخالف مظاہروں سے شروع ہو کر خانہ جنگی کی شکل اختیار کر گیا۔ اس بحران کے سبب اب تک دو لاکھ تیس ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چُکے ہیں جبکہ لاکھوں افراد گھر بار چھوڑ کر فرار ہونے پر مجبور ہوئے ہیں۔