1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام میں خانہ جنگی کو ایک ہزار دن ہو گئے

مقبول ملک8 دسمبر 2013

مارچ 2011ء میں شروع ہونے والے عرب ریاست شام کے خونریز تنازعے کو آج اتوار آٹھ دسمبر 2013ء کو ٹھیک ایک ہزار دن ہو گئے ہیں لیکن یہ ہلاکت خیز خانہ جنگ ابھی بھی ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔

https://p.dw.com/p/1AUu9
تصویر: Reuters

اس بارے میں جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ اپنے آغاز کے کچھ ہی عرصے بعد ایک باقاعدہ خانہ جنگی کی صورت اختیار کر جانے والا شامی تنازعہ اپنے 34 ویں مہینے میں داخل ہو گیا ہے۔

گزشتہ پونے تین سال کے دوران مشرق وسطیٰ کی اس ریاست میں اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ایک لاکھ سے زائد افراد ہلاک اور تین ملین سے زائد اپنی جانیں بچانے کے لیے داخلی یا بیرون ملک ہجرت پر مجبور ہو چکے ہیں۔ شامی اپوزیشن کے اعداد و شمار کے مطابق اس خانہ جنگی میں اب تک ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک لاکھ 26 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔

Syrien mutmaßlicher Giftgaseinsatz in Ghouta
دمشق کے نواحی قضبے غوطہ میں کیمیائی ہتھیاروں سے کیے گئے حملے کے ہلاک شدگان میں سے چند کی لاشیںتصویر: Reuters

عرب لیگ اور اقوام متحدہ کی طرف سے اس تنازعے کے حل کے لیے فریقین کے مابین ثالثی کی اب تک کی تمام تر کوششیں اس حد تک بے نتیجہ رہی ہیں کہ شام کی داخلی تباہی کا سفر ابھی تک جاری ہے اور ملک کے بہت سے شہر اور علاقے بھی تاحال محاذ جنگ بنے ہوئے ہیں۔

شام میں خانہ جنگی کے ایک ہزار دن پورے ہونے کی مناسبت سے یورپ کو تشویش اس بات پر ہے کہ یہ تنازعہ ’گزشتہ کئی عشروں کے سب سے تباہ کن انسانی بحران‘ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ یورپی یونین کی ایک اعلیٰ عہدیدار نے اس بارے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس بحران اور المیے کو بالآخر ختم ہونا چاہیے۔

یورپی یونین کی انسانی بنیادوں پر امداد کی نگران خاتون کمشنر کرسٹالینا جورجیوا نے برسلز میں کہا کہ شام میں ’تشدد اور خونریزی کے ایک ہزار دنوں کا نتیجہ یہ ہے کہ بیسیوں ہزار مرد، خواتین اور بچے ہلاک ہو چکے ہیں اور کئی ملین انسان سلامتی کی تلاش میں یا تو شام کی بین الاقومی سرحدوں کے اندر ہی بے گھر ہو چکے ہیں یا ہجرت کے بعد دوسرے ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔‘

Krieg in Syrien Friedhof bei Damaskus
جنگ نے بستیاں برباد کر دیں اور قبرستان آباد ہونے لگےتصویر: Reuters

کرسٹالینا جورجیوا نے ڈی پی اے کے ساتھ گفتگو میں کہا: ’’موت، خوف، تکلیف، محرومی اور ناامیدی کے ایک ہزار دن۔ یہ ہزار دن وہ عرصہ ہے، جس میں ہم شاہدین کے طور پر یہ دیکھنے پر مجبور ہوئے کہ کس طرح ایک ’گمشدہ نسل‘ وجود میں آتی جا رہی ہے۔‘‘

دمشق حکومت اور شامی باغیوں کے مابین امن مذاکرات کے آغاز کے لیے بین الاقوامی برادری کی انتھک کوششوں کے نتیجے میں شام سے متعلق ’جنیوا ٹو‘ کہلانے والی امن کانفرنس کا انعقاد 22 جنوری کو ہو گا۔ اس کانفرنس میں ٹھوس نتائج پر پہنچنے کی کوشش کی جائے گی لیکن بہت سے ماہرین کے بقول حقیقت پسندانہ بنیادوں پر دیکھا جائے تو ایسے نتائج کا امکان کم ہے۔

اس تناظر میں یورپی یونین کی انسانی بنیادوں پر امداد کی نگران کمشنر جورجیوا نے کہا، ‘‘یہ بین الاقوامی برادری، خاص کر شامی تنازعے کے فریقین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس امر کو یقینی بنائیں کہ جن لاکھوں شامی باشندوں کو انسانی بنیادوں پر امداد کی اشد ضرورت ہے، ان تک امدادی تنظیموں اور کارکنوں کی محفوظ رسائی ممکن بنائی جائے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں