جرمن ميڈيا کا موڈ خراب، چانسلر ميرکل پر تنقيد کی بوچھاڑ
26 اگست 2011جرمنی کے بہت کثير الاشاعت اور سنسنی خیزی پر یقین رکھنے والے عوامی روزنامے BILD نے حال ہی ميں ايک سرخی لگائی: ’’ہيلموٹ کوہل: ميرکل کے نام ايک ڈرامائی اپيل! ہميں احتياط سے کام لينا ہوگا۔ کہيں ہم سب کچھ ہی نہ کھو بيٹھيں۔‘‘ سنجيدہ اور معياری روزنامے Süddeutsche Zeitung کی ايک سرخی يہ ہے: ’’کوہل: ميرکل کی خارجہ سياست، کسی رخ کے بغير۔‘‘
سابق جرمن چانسلر ہيلموٹ کوہل سے ايک معروف سياسی جريدے کو ديے گئے انٹرويو ميں اُن کے پس رو چانسلر شروئڈر کی حکومت کے عراق کی جنگ ميں شرکت سے انکار اور چانسلر ميرکل کی موجودہ حکومت کی جانب سے سلامتی کونسل ميں ليبيا پر پيش کی جانے والی قرارداد پر ووٹ محفوظ رکھنے کے بارے ميں پوچھتے ہوئے يہ کہا گيا تھا کہ کيا جرمنی اپنی سياست کا رُخ کھو چکا ہے؟ اس کے جواب ميں ہيلموٹ کوہل نے کہا کہ افسوس کے ساتھ اس کا جواب ’ہاں‘ ميں دينا پڑتا ہے۔ انہوں نے مطالبہ کيا کہ جرمنی کو دوبارہ قابل اعتماد بننا چاہيے۔
ظاہر ہے کہ کوہل کی يہ تنقيد اپنی ہی پارٹی کی موجودہ چانسلر ميرکل پر بھی ہے۔ اُنہوں نے ميرکل کی يورو زون کے بحران سے متعلق پاليسی پر بھی بالواسطہ نکتہ چينی کی۔
اسی طرح جرمن صدر کرسٹيان وولف نے معاشيات کے نوبل انعام يافتگان سے خطاب کرتے ہوئے جو کچھ کہا، اُسے بھی ميڈيا کا ايک بڑا حصہ خاص طور پر انگیلا ميرکل پر تنقيد قرار دے رہا ہے۔ ليکن جرمن سربراہ مملکت کی تنقيد کا پہلا ہدف يورپی مرکزی بينک تھا اور دوسرے درجے پر اُنہوں نے تمام ہی يورپی حکومتوں پر عمومی نکتہ چينی کی۔ اُنہوں نے نہ تو اولين درجے پر جرمن حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا اور نہ ہی اکیلی برلن حکومت پر نکتہ چينی کی۔
اس کے برعکس وولف نے اپنی تقرير ميں يورو زون کے بحران کے حوالے سے جو تنقيد کی، اُس کا رخ اسی طرف تھا، جو جرمن حکومت کا موقف ہے ليکن جسے وہ دوسرے يورپی ممالک سے پوری طرح سے منوانے ميں کامياب نہيں ہو پا رہی۔ يوں صدر وولف کی تقرير کو ایک طرح سے ميرکل کی حمايت بھی قرار دیا جا سکتا ہے۔
ليکن اس وقت اخباروں، سياسی جريدوں اور روزناموں کا موڈ بگڑا ہوا ہے۔ وہ ہاتھ دھو کر چانسلر انگیلا ميرکل کے پيچھے پڑے ہوئے ہيں اور اس ميں دائيں سے لے کر بائيں بازو تک کا سارا ہی پريس شامل ہے۔
تبصرہ: پيٹر اشٹُٹسلے
ترجمہ: شہاب احمد صديقی
ادارت: مقبول ملک