170811 Merkel Sarkozy Abschluss
17 اگست 2011اگرچہ کل پيرس ميں فرانس اور جرمنی کے سربراہان نے جو کچھ طے کيا اسے فی الحال صرف تجاويز کی حيثيت حاصل ہے ليکن پھر بھی ان کا ايک مقصد يورپ کی حساس مالی منڈيوں ميں سکون لانا ہے۔ انگيلا ميرکل اور نکولا سارکوزی نے کل پيرس ميں مشترکہ تصورات کا ايک پورا پلندہ پيش کيا۔
اس ميں يورو زون کے17 ممالک کی ايک مشترکہ اقتصادی حکومت اہم ترين نکتہ ہے۔ خصوصاً فرانسيسی صدر سارکوزی ايک طويل عرصے سے اس تصور کو عملی شکل دينے پر اصرار کر رہے ہيں۔ انہوں نے کہا: ’’مشترکہ اقتصادی کونسل ڈھائی سال کی مدت کے ليے ايک مستحکم صدر منتخب کرے گی۔ چانسلر ميرکل نے تجويز پيش کی ہے کہ يہ عہدہ يورپی کونسل کے صدر ہيرمن وان رومپوئے کو سونپا جائے۔‘‘
جرمن چانسلر ميرکل فرانسيسی صدر سارکوزی سے اپنی يہ بات منوانے ميں کامياب رہيں کہ يورو زون کے تمام ممالک کو قرضوں ميں مسلسل اضافے کو روکنے کا پابند بنايا جائے: ’’ہم يورو زون کے دوسرے ممالک کو بھی يہ تجويز پيش کرتے ہيں کہ ہم سب اپنے آئين ميں اس نکتے کو شامل کر ليں۔ اس طرح اکثريت کی حمايت ہونے يا نہ ہونے سے قطع نظر يہ ضابطہ اعلٰی ترين اصول کی حيثيت اختيار کر لے گا۔‘‘
مير کل اور سارکوزی شیئرز اور اسٹاک ايکسچينج کے کاروبار ميں منتقل ہونے والی رقوم پر ٹيکس کی تجويز کو بھی يورو زون کے دوسرے رکن ممالک سے منوانا چاہتے ہيں۔ وہ آئندہ ہفتوں کے دوران يورپی يونين کے دوسرے رکن ممالک سے ان تجاويز پر بات چيت کريں گے اور ان ميں سے اکثر کو اگلے موسم گرما تک نافذ کرانے کی کوشش کريں گے۔ تاہم جرمنی اور فرانس کے سربراہان نےکل اپنی ملاقات ميں يورو بونڈز کی حمايت نہيں کی۔
جرمنی کی سب سے بڑی اپوزيشن پارٹی ايس پی ڈی کے پارليمانی قائد فرانک والٹر اشٹائن مائر نے يورو بونڈز کی حمايت کرتے ہوئے کہا کہ دونوں سربراہان کی تجاويز صحيح رخ پر تو ہيں ليکن وہ قرضوں کے بحران کا مناسب حل نہيں ہيں۔
ادھر عالمی بينک کے صدر نے يورپی حکومتوں سے کہا کہ وہ اصلاحات کے ذريعے معاشی اعتبار کو بحال کريں۔
رپورٹ: ڈانئيلا يُنگ ہاؤس / شہاب احمد صديقی
ادارات: عدنان اسحٰق