1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جان کیری کی سفارتکاری: ایک پیر یورپ ایک مشرق وسطیٰ میں

کشور مصطفیٰ1 اپریل 2014

امریکی وزیر خارجہ جان کیری گزشتہ روز یعنی پیر کو مشرق وسطیٰ کے دورے پر یروشلم پہنچے جہاں انہوں نے پہلے اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور بعد ازاں فلسطینی مذاکرات کار سے ملاقات کی۔

https://p.dw.com/p/1BZeo
تصویر: Reuters

اطلاعات کے مطابق کیری نے آج منگل کی صبح کوئی دو گھنٹے نیتن یاہو کے ساتھ دوبارہ بات چیت کی۔ گزشتۃ چند روز کے اندر امریکی وزیر خارجہ کا مشرق وسطیٰ کا یہ دوسرا دورہ ہے جس کا مقصد قیام امن کے عمل میں دوبارہ سے جان ڈالنے کی کوشش کرنا ہے۔

یورپ کے دورے پر آئے ہوئے امریکی وزیر خارجہ جان کیری کل فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں تھے اور انہوں نے اچانک مشرق وسطیٰ کے دورے کا فیصلہ کیا اور یروشلم پہنچ کر پیر کی شام کو اپنے ہوٹل میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو سے رات دیر گئے تک بات چیت کی اور اُس کے بعد کیری نے فلسطینی مذاکرات کار صائب عریقات کے ساتھ مذاکرات کیے۔ امریکی حکام کے مطابق آج منگل کی صبح کیری اور نیتن یاہو کے درمیان مزید بات چیت ہوئی جس میں مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کو بچانے کی کوشش کے طور پر اسرائیلی جاسوس جوناتھن پولارڈ کی رہائی کا موضوع زیر بحث رہا۔ امید کی جا رہی تھی کہ جان کیری فلسطینی صدر محمود عباس سے بھی ملیں گے لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اور ناشتے پر نیتن یاہو کے ساتھ بات چیت کے بعد وہ یورپ کی فلائٹ لے کر برسلز کے لیے روانہ ہو گئے جہاں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے وزرائے خارجہ آج برسلز میں ایک اہم ملاقات کے دوران یوکرائن کے بحران پر گفتگو کر رہے ہیں۔

Palästina Protest John Kerry
فلسطینیوں کا جان کیری کے خلاف مظاہرہتصویر: picture-alliance/dpa

دریں اثناء ایک سینیئر فلسطینی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ جان کیری 24 گھنٹوں کے اندر فلسطینی صدر محمود عباس سے مذاکرات کے لیے ایک بار پھر مشرق وسطیٰ پہنچیں گے۔

مشرق وسطیٰ کے قیام امن کے مذاکرات گزشتہ آٹھ ماہ سے شدید بحران کا شکار ہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینی قیدیوں کی رہائی سے انکار ہے۔ گزشتہ اختتام ہفتہ پر تل ابیب حکومت نے 26 اسرائیلی، عرب اور فلسطینی قیدیوں کو طے شدہ وقت پر رہا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

اسرائیل گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران 78 طویل مدتی قیدیوں کو رہا کر چکا ہے۔ انہیں 1993ء کے اوسلو امن معاہدے سے پہلے ہی دہشت گردانہ حملوں میں ملوث ہونے کا مجرم قرار دے دیا گیا تھا۔ خطے میں قیامِ امن کے سلسلے میں امن منصوبہ اپنے مجوزہ راستے سے اس وقت ہٹ گيا جب اسرائیل نے طویل عرصے سے قید 26 فلسطینیوں کی رہائی کی چوتھی کھیپ کو رہا کرنے سے پس و پیش کا مظاہرہ کیا۔ اُدھر فلسطینی صدر محمود عباس کا کہنا ہے کہ ان قیدیوں کو 29 مارچ تک رہا ہو جانا چاہیے کیونکہ امن مذاکرات کی ابتدا کے وقت اسرائیل نے اس کا وعدہ کیا تھا۔

Kerry und Lawrow in Paris
کیری اور لاوروف پیرس میںتصویر: picture alliance / AP Photo

اسرائیلی حکومت کا یہ موقف ہے کہ جب تک اُسے اس بات کی گارنٹی نہیں ملتی کہ قیدیوں کی رہائی کے بعد فلسطین کی طرف سے امن مذاکرات کو سنجیدگی سے آگے بڑھایا جائے گا، تب تک وہ قیدیوں کو رہا نہیں کرے گا۔ اس کی جگہ تاہم اسرائیل نے 400 قیدیوں کی رہائی کی پیشکش کی ہے تاہم ان کا انتخاب وہ خود کرے گا۔ دریں اثناء فلسطینی اتھارٹی کی قیادت نے دھمکی دی ہے کہ وقت مقررہ پر فلسطینی قیدیوں کی رہائی عمل میں نہیں آئی تو وہ فوری طور پر بین الاقوامی اداروں کی رکنیت کے لیے درخواست دے گی میڈیا اس کو فلسطین کی جانب سے الٹی میٹم قرار دے رہا ہے۔ فلسطینی ذرائع کے مطابق امن مذاکرات اُس وقت تک آگے نہیں بڑھیں گے جب تک اسرائیل مقبوضہ غرب اردن اور مشرقی پروشلم میں یہودی بستیوں کی تعمیر نہیں روکتا اور قیدیوں کی رہائی کے طے شدہ شیڈول کے مطابق اس پر عملدر آمد نہیں کرتا۔