بحيرہ روم ميں ايک اور سانحہ
22 ستمبر 2016خبر رساں ادارے ايسوسی ايٹڈ پريس کی مصری دارالحکومت قاہرہ سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق يہ واقعہ بدھ 21 ستمبر کو پيش آيا اور اس ميں ہلاک ہونے والوں کی تعداد تاحال بياليس ہے۔ مصری فوج نے ايک بيان ميں ان ہلاکتوں کی تصديق کرتے ہوئے بتايا کہ ’غير قانونی ہجرت کی ايک کوشش کو ناکام بنانے کی کوشش کی گئی تھی۔‘
دريں اثناء روزيٹا نامی ايک اور شہر ميں اس کشتی کے حادثے ميں ہلاک ہو جانے والوں کے لواحقين جمع ہوئے اور انہوں نے سمندر ميں لاپتہ ہو جانے والوں کی تلاش اور ريسکيو کے کاموں ميں تيزی لانے کے ليے حکام پر زور ديا۔ حادثے سے متاثرہ ايک مہاجر کے ايک رشتہ دار حسن سليمان داؤد نے بتايا، ’’ہم صبح ساڑھے پانچ بجے سے حکام سے يہی کہہ رہے تھے کہ سمندر ميں اس مقام پر کشتی ڈوب رہی ہے اور وہ ہميں يہی جواب دے رہے تھے کہ ان کے پاس ريسکيو کے ليے کوئی کشتی دستياب نہيں۔ کوئی اپنی جگہ سے ہلنے کے ليے تيار نہ تھا۔‘‘
مصری وزارت صحت کے ترجمان خالد مجاہد کے بقول ہلاک شدگان کی حتمی تعداد کا تعين کرنا تاحال نا ممکن ہے۔ ايک اور سرکاری اہلکار علاء عثمان نے بتايا کہ اب تک قريب ڈيڑھ سو تارکين وطن کو بچا ليا گيا ہے اور سمندر سے لاشيں نکالنے کا کام اب بھی جاری ہے۔
مصر کی سرکاری نيوز ايجنسی MENA کے مطابق ڈوبنے والی کشتی پر چھ سو افراد سوار تھے اور وہ دارالحکومت قاہرہ سے قريب 180 کلوميٹر شمال کی طرف حادثے کا شکار ہوئی۔
حاليہ چند برسوں کے دوران لاکھوں افراد نے غربت اور جنگ زدہ حالات سے فرار ہونے کے ليے غير قانونی ہجرت کا راستہ اختيار کيا۔ يورپ پہنچنے کے ليے ليبيا سے لاکھوں لوگ اسی طرح انسانی اسمگلروں کا سہارا لے کر بحيرہ روم کا خطرناک سفر طے کرتے ہيں۔ اس دوران ہزاروں افراد لقمہ اجل بھی بن چکے ہيں۔ يورپی يونين کی بارڈر ايجنسی فرنٹيکس کے مطابق سال رواں کے دوران جنوری سے ستمبر کے درميان قريب بارہ ہزار افراد مصر سے اٹلی پہنچ چکے ہيں جبکہ گزشتہ برس اسی عرصے کے دوران يہ تعداد سات ہزار تھی۔ سن 2016 کے پہلے چھ ماہ کے دوران 2,901 افراد بحيرہ روم ميں ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہيں۔