یوکرائن میں نئی امید، احتجاجی مظاہرے جاری
12 دسمبر 2013جہاں امریکا مظاہرین کی جانب بے رحمانہ طرزِ عمل روا رکھنے پر یوکرائن کے خلاف پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہا ہے، وہاں روس یوکرائن کو اپنی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے جمعرات کو قوم کے نام اپنے خطاب میں بحران زدہ سابق سوویت جمہوریہ یوکرائن کے ساتھ شراکت کے روسی عزم کا پُر زور اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ روس کسی کو مجبور نہیں کر ے گا لیکن اگر دوست ممالک اشتراکِ عمل کی خواہش رکھتے ہیں تو پھر روس بھی اس کے لیے تیار ہے۔
یوکرائن میں یورپی یونین کے ساتھ قریبی تعلقات کے حق میں مظاہرہ کرنے والوں کے خلاف اب تک ملکی سکیورٹی فورسز نے جس بے رحمانہ طریقے سے کارروائیاں کی ہیں، اُس پر امریکا یوکرائن کے خلاف پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہا ہے۔ واشنگٹن میں امریکی وزارتِ خارجہ کی خاتون ترجمان جَین ساکی کا کہنا تھا کہ پابندیوں سمیت تمام امکانات پر غور کیا جا رہا ہے تاہم ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ ان پابندیوں میں یوکرائن کے حکومتی نمائندوں کو ویزا دینے سے انکار یا اُن کے اثاثے منجمد کرنا شامل ہو سکتا ہے۔
یوکرائن کے صدر وکٹور یانُوکووِچ کے تقریباً پانچ ہزار مخالفین نے شدید سردی میں گزشتہ رات بھی شہر کے اُس مرکزی آزادی چوک میں گزاری، جسے میدان کہا جاتا ہے۔ سکیورٹی فورسز اپنی کل کی ایک سخت کارروائی کے بعد پیچھے ہَٹ گئی تھیں، جس کے بعد مظاہرین نے سڑکوں پر کھڑی کی گئی رکاوٹوں کو مزید مضبوط بنا لیا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلے نے یوکرائن کے شہریوں کے احتجاج کرنے کے حق کا دفاع کرتے ہوئے اس یقین کا اظہار کیا کہ میدان چوک میں مظاہرہ کرنے والے یورپ کے لیے اپنی حمایت کا اظہار کر رہے ہیں اور انہیں ایسا کرنے کا حق حاصل ہے۔
اس تنازعے کا کوئی حل تلاش کرنے کے سلسلے میں یورپی یونین کی مندوب برائے امورِ خارجہ کیتھرین ایشٹن بھی دارالحکومت کییف میں تھیں۔ وہاں کی قیادت کے ساتھ اپنی بات چیت کے حوالے سے اُنہوں نے کہا، اُنہوں نے واضح کیا ہے کہ یورپی یونین اِن شہریوں کے ساتھ بات چیت کرنا چاہتی ہے، جو اپنے پُر امن مظاہرے کرنے کے حق کو استعمال کر رہے ہیں۔ ایشٹن کے خیال میں غالباً صدر یانُوکووِچ تجارت اور تعاون کے اُس سمجھوتے پر دستخط کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، جسے اُنہوں نے گزشتہ مہینے مسترد کر دیا تھا۔
اسی دوران یورپی پارلیمان نے بھی یوکرائن کے مظاہرین کے خلاف پُر تشدد کارروائیوں کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ یورپی یونین کے رکن ملکوں کو بھی یوکرائن کے خلاف پابندیاں عائد کرنے پر تبادلہء خیال کرنا چاہیے۔ اسی دوران یورپی پارلیمان نے اپنا ایک وفد کییف روانہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ صدر یانُوکووِچ کو اپوزیشن اور مظاہرین کے ساتھ بات چیت کا قائل کیا جا سکے۔ آج یوکرائن کے کچھ حکومتی عہدیدار بھی یورپی حکام کے ساتھ بات چیت کے لیے برسلز پہنچ رہے ہیں۔