یونان سے مہاجرین کو واپس ترکی بھیجنے کا سلسلہ پھر سے شروع
8 اپریل 2017جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے کی یونانی دارالحکومت ایتھنز سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یونانی جزیروں سے انچاس تارکین وطن کو واپس ترکی بھیجا گیا۔ ترکی واپس بھیجے جانے والے تارکین وطن کی زیادہ تعداد پاکستانی شہریوں کی تھی تاہم کچھ کا تعلق الجزائر اور بنگلہ دیش سے تھا جب کہ ایک فلسطینی تارکِ وطن کو بھی یونان سے واپس ترکی بھیجا گیا۔
’یورپ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ویزے نہیں دیے جائیں گے‘
ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق ان تمام تارکین وطن کی یونان میں جمع کرائی گئیں پناہ کی درخواستیں یا تو مسترد ہو چکی تھیں، یا پھر انہوں نے اپنی درخواستیں واپس لے لی تھیں۔ چھ اپریل بروز جمعرات ان انچاس افراد کو یورپی سرحدوں کے نگران ادارے فرنٹیکس کی نگرانی میں ایک بحری جہاز کے ذریعے ترکی کے ساحلی شہر ڈیکیلی پہنچا دیا گیا۔
رپورٹوں کے مطابق یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے شدہ مہاجرین کی ڈیل کے تحت ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان آنے والے پناہ کے متلاشی افراد کو یونان سے ملک بدر کر کے واپس ان کے اپنے آبائی وطنوں کی جانب بھیجے جانے کی بجائے انہیں ترکی بھیج دیا جاتا ہے۔ گزشتہ برس طے ہونے والے اس معاہدے پر عمل درآمد کی رفتار تاہم کافی سست رہی ہے۔ قریب ایک برس کے دوران 933 تارکین وطن کو ہی یونان سے واپس ترکی بھیجا جا سکا ہے۔
بحیرہ ایجیئن کو غیر قانونی طور پر عبور کر کے ترکی سے یونان پہنچنے والے تارکین وطن یونانی جزیروں پر قائم استقبالیہ مراکز میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کراتے ہیں۔
یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے کیے جانے کا عمل بھی کافی حد تک سُست روی کا شکار ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق صرف یونانی جزیروں پر چودہ ہزار سے زائد مہاجرین اور تارکین وطن پھنسے ہوئے ہیں، جن کی سیاسی پناہ کی درخواستوں پر ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں کیا جا سکا۔
دو برسوں میں ایک لاکھ سے زائد پاکستانیوں نے یورپ میں پناہ کی درخواستیں دیں