1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین اور اسرائیل کے مابین کشیدگی

17 جولائی 2013

اسرائیلی لیڈروں نے یورپی یونین کی طرف سے مقبوضہ علاقوں میں ترقیاتی کاموں میں شریک اسرائیلی اداروں کی فنڈنگ پر پابندی لگانے کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/199Zu
تصویر: Reuters

ساتھ ہی اسرائیلی لیڈروں انہوں نے غرب اُردن اور مشرقی یروشلم میں یہودی بستیوں کے قیام کے سبب عالمی سطح پر اسرائیل کے مسلسل تنہا ہوتے چلے جانے کی حقیقت کو بھی تسلیم کیا ہے۔

یورپی یونین کا یہ فیصلہ دراصل بین الاقوامی برادری کی اُس ناراضگی کی علامت ہے جس کی وجہ 1967ء کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں فلسطینی علاقوں پر اسرائیلی قبضہ ہے۔ اسرائیل کے اس اقدام کے بعد سے مشرق وسطیٰ کا مسئلہ موضوع بحث بن کر رہ گیا ہے۔ گزشتہ روز یورپی یونین کا یہ فیصلہ اسرائیلی میڈیا کا اہم ترین موضوع بنا رہا۔ یہاں تک کہ اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنی کابینہ کے چند سینیئر وزراء کو مشاورت کے لیے طلب کر لیا۔ نیتن یاہو نے کہا، ’’ہم اپنی سرحدوں کے بارے میں کسی قسم کا بیرونی فرمان قبول نہیں کریں گے۔‘‘ اسرائیلی وزیر اعظم نے مزید کہا کہ سرحدی تنازعہ صرف فلسطینیوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات کے تحت ہی حل کیا جا سکتا ہے۔

Bau israelischer Siedlungen
یہودی بستی کا تعیراتی منظرتصویر: dapd

اسرائیلی وزیر اعظم نے کہا ہے کہ یہودی بستیوں کی تعمیر کا مقصد 1967ء سے پہلے کی سرحدی صورتحال میں تبدیلی لانا ہے اور پورے غرب اُردن کو قبضے میں لینا مقصد نہیں ہے۔ نیتن یاہو نے کہا ہے کہ یورپی برادری کو چاہیے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں پائے جانے والے اہم ترین مسائل، جن میں شام کی خانہ جنگی اور ایران کا ایٹمی پروگرام شامل ہے، پر توجہ مبذول کرے۔ لیکن نیتن یاہو کے وزیر مالیات اور ایک سینیئر مخلوط پارٹنر ’یائر لاپیڈ‘ نے متنبہ کیا ہے کہ یورپی یونین کا اقدام عالمی سیاسی منظر نامے پر اسرائیل کی گرتی ہوئی ساکھ کی عکاسی ہے۔ انہوں نے کہا،’’وقت بھی ہمارا ساتھ نہیں دے رہا اور اسرائیل کی طرف سے امن مذاکرات سے باہر رہنے والا ہر دن اُس کی بدنامی کا سبب بن رہا ہے۔ اس طرح ہماری بین الاقوامی ساکھ کو ہر روز نقصان پہنچ رہا ہے۔‘‘

مشرق وسطیٰ امن مذاکرات قریب پانچ برسوں سے جمود کا شکار ہیں اور ایک ایسے وقت میں یہودی بستیوں کا قیام عمل میں لایا جا رہا ہے۔ اُدھر امریکی وزیر خارجہ جان کیری منگل کے روز اسرائیل کے پڑوسی ملک اُردن میں تھے۔ اُن کا یہ دورہ فریقن کو ایک عرصے سے امن مذاکرات کے لیے آمادہ کرنے کی کوششوں کا ایک حصہ تھا۔

Siedlungsbau in Ost-Jerusalem
ھارحوما میں قائم یہودی بستیتصویر: picture-alliance/dpa

فلسطینیوں کا مطالبہ ہے کہ امن مذاکرات کے آغاز سے پہلے اسرائیل غرب اُردن اور مشرقی یروشلم میں یہودی بستیوں کی تعیمر کا سلسلہ روک دے۔ یہ وہ علاقہ ہے، جسے فلسطینی اپنے مستقبل کی ریاست کا حصہ تصور کرتے ہیں اور اسے سن 1967ء میں اسرائیل نے اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ فلسطینیوں نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ 1967ء سے پہلے کی سرحدی لائن کو مستقبل کی سرحد کے طور پر قبول کر لے تاہم اس میں چھوٹی موٹی ترمیم کے امکان کو کھلا رکھا جائے، جن کے بارے میں مذاکرات کے دوران بات کی جا سکتی ہے۔

فلسطینیوں نے مزید کہا ہے کہ یہودی بستیوں کی تعمیر کا تسلسل بداعتمادی کی علامت ہے اور دو ریاستی حل کی امید کو کمزور کرنے کا سبب بن رہی ہے۔

پانچ لاکھ سے زائد اسرائیلی غرب اُردن اور مشرقی یروشلم میں آباد ہیں جبکہ ان علاقوں میں بسنے والے فلسطینیوں کی تعداد ڈھائی ملین بتائی جاتی ہے۔

یورپی یونین کا مقبوضہ علاقوں میں ترقیاتی کاموں میں شریک اسرائیلی اداروں کی فنڈنگ پر پابندی لگانے کا فیصلہ اسرائیلی تعمیرات کے بارے میں عالمی برادری کی طرف سے ناراضگی کی تازہ ترین علامت ثابت ہوا۔ گزشتہ برس اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل کے سخت اعتراض کے باوجود 1967ء تک کی سرحدوں کے اندر فلسطینی ریاست کو تسلیم کرتے ہوئے اسے اپنے ہاں پہلے سے بہتر یعنی مبصر رکن کا درجہ دے دیا تھا۔ امریکی صدر باراک اوباما نے بھی اسرائیلی تعمیرات کی مذمت کی تھی اور کہا تھا کہ فلسطینی ریاست 1967ء تک کی سرحدوں کے اندر قائم کی جانی چاہیے۔

Israelische Siedlung in Ost-Jerusalem
مشرقی یروشلمتصویر: AP

یورپی یونین کی طرف سے اسرائیلی یونیورسٹییوں، کمپنیوں اور محققین کو درجنوں مختلف منصوبوں کے تحت ہر سال کئی ملین یورو مالیت کی گرانٹ دی جاتی ہے۔ یونین نے اسرائیل میں ضرر رساں سبز مکانی گیسوں کے اخراج میں کمی کی خاطر ایک مرکز کے قیام کے لیے قریب چھ لاکھ 70 ہزار یورو بھی مہیا کیے ہیں۔ اسی طرح ساڑھے نو لاکھ یورو ایک ایسے پروگرام کے لیے مہیا کیے گئے جس کا مقصد مویشیوں کی دیکھ بھال اور ان کی صحت سے متعلق معائنوں کی صورتحال بہتر بنانا ہے۔ تاہم یہ امداد جن رہنما ضابطوں کے تحت دی گئی، وہ یورپی یونین کا یہی دیرینہ موقف ہے کہ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں یہودی آبادکاری بین الاقوامی قانون کی رو سے غیر قانونی ہے۔ یورپی یونین کے ایک بیان کے مطابق اس بارے میں یونین کے موقف پر اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ خود اسرائیل کے ملکی قوانین کی رو سے ان تعمیرات کو قانونی حیثیت حاصل ہے یا نہیں۔