یورپی رویہ امریکا کے لیے مایوس کُن، تبصرہ
9 ستمبر 2014وہ اپنے تبصرے میں لکھتے ہیں کہ واشنگٹن حکومت یورپی ملکوں کی جانب سے زیادہ فوجی سرگرمی کی خواہاں ہے لیکن یورپ اس حوالے سے امریکا کو مایوس کرتا چلا آ رہا ہے۔
’’امریکا گزشتہ کئی برسوں سے اپنے یورپی حلیف ملکوں پر زور دے رہا ہے کہ وہ اسلحہ بندی کے لیے زیادہ مالی وسائل مختص کریں اور اپنی اقتصادی استعداد کا دو فیصد دفاع پر خرچ کریں۔ یورپی یونین میں صرف برطانیہ ایسا ملک ہے، جو دفاع پر دو فیصد سے زیادہ یعنی 2.4 فیصد خرچ کرتا ہے جبکہ جرمنی سمیت دیگر تمام رکن ملکوں میں دفاع کے لیے مختص کیے جانے والے وسائل سے اس سے کہیں کم ہیں۔
امریکا کے خیال میں یوکرائن کے بحران کی صورت میں ایک اور ایسی دلیل اُس کے ہاتھ آ گئی ہے، جس کے ذریعے وہ اپنے یورپی حلیفوں پر دباؤ ڈال سکتا ہے۔ اِس پر مستزاد یہ کہ روس نے گزشتہ چند برسوں کے دوران اپنے دفاعی اخراجات میں نمایاں اضافہ کر دیا ہے۔ اوباما انتظامیہ کے مطابق اب مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو بھی ایسا ہی کرنا چاہیے۔
تاہم لگتا یہی ہے کہ امریکا کو اپنی ان توقعات کے حوالے سے مایوسی ہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میلان میں منعقدہ اپنے غیر رسمی اجتماع میں یورپی وُزرائے دفاع اسلحے پر اب تک کے مقابلے میں زیادہ رقم خرچ کرنے کا اعلان نہ کریں گے اور نہ ہی کر سکتے ہیں کیونکہ یورپی یونین کے رکن ملکوں کی کمزور معیشتیں پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے لڑکھڑا رہی ہیں۔ جب جرمنی اپنی بہتر اقتصادی حالت کے باوجود دفاع کے لیے زیادہ پیسہ مختص کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا تو باقی ممالک سے تو پھر کیا توقع کی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب یوکرائن کے بحران کے باوجود زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کیونکہ نیٹو ممالک مل کر اُس سے کئی گنا زیادہ رقم خرچ کرتے ہیں، جو ماسکو میزائل، ٹینک اور رائفلیں بنانے پر خرچ کرتا ہے۔ لگتا یہی ہے کہ میلان کے اجلاس کے نتائج نہ صرف امریکا بلکہ یوکرائن کے لیے بھی مایوس کُن ہوں گے، جو اگر نیٹو نہیں تو کم از کم انفرادی طور پر مختلف یورپی ملکوں کی جانب سے ہتھیار ملنے کی امید کر رہا ہے۔
اور تو اور پولینڈ کی طرف سے بھی ایسے کسی اعلان کی توقع نہیں ہے۔ یہ اور بات ہے کہ روس کی فوجی برتری اتنی واضح اور بھرپور ہے کہ تھوڑے بہت ہتھیار دینے سے بھی کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ پھر یہ بھی ہے کہ مغربی دنیا کی جانب سے یوکرائن کو ہتھیاروں کی فراہمی آگ پر تیل چھڑکنے کے مترادف ہو گی جبکہ یورپ یا امریکا میں کوئی بھی نہیں چاہتا کہ ایسا ہو۔ کوئی بھی یہ نہیں چاہے گا کہ یوکرائن کی وجہ سے، جو نیٹو کا رکن بھی نہیں ہے، روس کے ساتھ ایٹمی جنگ کا خطرہ پیدا ہو جائے۔
میلان میں اپنے اس اجلاس میں یورپی وُزرائے دفاع ایک اور موضوع پر امریکیوں کی طرف ضرور تعاون کا ہاتھ بڑھائیں گے اور وہ ہے، دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف جنگ۔ جرمنی ہی نہیں دیگر یورپی ممالک بھی اِن انتہا پسندوں کے خلاف کردوں اور عراقی حکومت کی طویل المدتی بنیادوں پر مدد کے لیے تیار ہیں۔ سوال لیکن یہ ہے کہ شام میں آئی ایس کا مقابلہ کیسے کیا جائے؟ وہاں امریکی فضائی حملے آئی ایس کو کمزور تو کر سکتے ہیں لیکن شکست نہیں دے سکتے۔ شام میں ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا مؤثر مقابلہ صدر بشار الاسد کے تعاون ہی سے کیا جا سکتا ہے تاہم یہ قدم اٹھانے سے واشنٹگن انتظامیہ ہچکچا رہی ہے۔‘‘