یورپ پہنچنے کی کوشش میں مہاجر بچے تشدد کا شکار
12 ستمبر 2017اقوام متحدہ کے اداروں، عالمی ادارہ برائے اطفال (یونیسیف) اور بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت (IOM) کی جانب سے جاری کردہ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ بحیرہء روم کے ذریعے یورپ پہنچنے والے ہر چار میں سے تین بچے مختلف طرز کے ذہنی اور جسمانی تشدد سے گزرتے ہیں۔
مہاجرین کا بحران: اٹلی کو عالمی مدد کی ضرورت ہے، اقوام متحدہ
مہاجرین کے ڈبونے کے واقعے نے ’دل توڑ دیا‘، گوٹیریش
مہاجرین کو سمندر سے ہی لوٹانا نادرست ہو گا، امدادی ادارے
یونیسیف اور بین الاقوامی تنظیم برائے مہاجرت کے مطابق زیریں صحارا کے افریقی ممالک سے تعلق رکھنے والے نوجوان تارکین وطن کو خصوصاﹰ نسل پرستانہ اور کئی دیگر اقسام کے تشدد کا سامنا ہوتا ہے۔
اقوام متحدہ کے ان اداروں کے مطابق اس سلسلے میں شمالی افریقہ سے بحیرہء روم عبور کر کے یورپ پہنچنے والے 22 ہزار تارکین وطن کا جائزہ لیا گیا، جن میں گیارہ ہزار نابالغ بھی تھے۔
یونیسیف کی علاقائی ڈائریکٹر برائے یورپ افشاں خان کے مطابق، ’’تلخ حقیقت یہ ہے کہ اب یہ عام سی بات بن چکی ہے کہ بحیرہء روم کے ذریعے یورپ پہنچنے کی کوشش کرنے والے بچوں کو جسمانی، جنسی اور ذہنی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘‘
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے 77 فیصد بچوں اور بالغ تارکین وطن کو ’براہ راست تشدد، استحصال اور دیگر مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو انسانوں کی ٹریفکنگ کے زمرے میں آتے ہیں۔‘‘
’’زیریں صحارا کے افریقہ سے تعلق رکھنے والے بچے اور نابالغ مہاجر دیگر افراد کے مقابلے میں کہیں زیادہ استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔‘‘ رپورٹ کے مطابق، ’’اس کی کلیدی وجہ نسل پرستی ہے۔‘‘
واضح رہے کہ لیبیا میں کسی فعال قومی حکومت کی عدم موجودگی، لاقانونیت، جرائم پیشہ افراد کی سرگرمیوں اور مسلح گروہوں کی موجودگی کی وجہ سے بڑی تعداد میں تارکین وطن لیبیا کا رخ کرتے ہیں، تاکہ وہاں سے یورپ پہنچنے کی کوشش کر سکیں۔
بتایا گیا ہے کہ نوجوان تارکین وطن ایک ہزار تا پانچ ہزار ڈالر ادا کر کے انسانوں کے اسمگلروں کا سہارا لے کر یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، تاہم اس دوران ان کی مشکلات میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔
اقوام متحدہ نے گزشتہ ہفتے یورپی یونین پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ لیبیا میں قید تارکین وطن کو درپیش شدید ترین حالات سے چشم پوشی اختیار کیے ہوئے ہے اور ان تارکین وطن کی فوری مدد کے لیے اقدامات نہیں کر رہی۔