ہولوکاسٹ: ایک ذاتی ڈائری میں نئے انکشافات
14 اکتوبر 2011جرمنوں کی اکثریت کے مطابق انہیں نازی سوشلسٹ دور کے مظالم اور ہولوکاسٹ کے بارے میں زیادہ علم ہی نہیں تھا مگر نازی جرمنی کے ایک چھوٹے سے ضلعے میں کام کرنے والے افسر فریڈرش کیلنر کی حال ہی میں جرمن زبان میں منظر عام پر آنے والی کتاب ’’آل مائنڈز بلرڈ اینڈ ڈارکنڈ: ڈائریز 1939- 1945‘‘ کچھ اور ہی کہانی سناتی ہے۔ 940 صفحات پر مشتمل یہ کتاب کیلنر کی ذاتی ڈائری کے مندرجات پر مشتمل ہے اور اِس میں کیلنر نے واقعات پر سخت تبصروں اور جنگ کے دوران اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کی کلپنگز کے ساتھ ساتھ ذاتی تاثرات بھی درج کیے ہیں۔
یہ ڈائری، جسے ایک دہائی تک امریکی اور جرمن پبلشرز چھاپنے سے کتراتے رہے، پہلی بار منظرِ عام پر تب آئی، جب 2005ء میں امریکہ کے سابق صدر جارج ڈبلیو بُش نے اسے ٹیکساس کی صدارتی لائبریری میں نمائش کے لئے رکھا۔ اس کے بعد تحقیقی تنظیموں اور یونٹس نے اس پر کھل کر کام شروع کر دیا اور پانچ سال تک کی تحقیق کے بعد کچھ عرصہ پہلے ہی جرمن پبلشنگ کمپنی والسٹائن نے اسے شائع کر دیا۔
اس ڈائری میں یہودیوں کے قتل عام اور پاگل خانوں میں ہونے والی پراسرار اموات پر افسوس کا اظہار کیا گیا ہے اور ساتھ ساتھ ایسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، جن سے ہٹلر اور اس کی افواج کے لیے کیلنر کی شدید نفرت اور غصےکا اظہار ہوتا ہے۔
ایلن سٹائن برگ امریکہ کی ایک ایسی تنظیم کے لیے کام کرتے ہیں، جو ہولوکاسٹ میں زندہ بچ جانے والوں کی نشاندہی کر کے ان کی کہانیاں، تجربات اور احساسات کو اکٹھا کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کتاب جرمن لوگوں کے اس دعوے کی تردید کرتا ہے کہ ان کو ہولوکاسٹ کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا۔
’’وحشی درندے‘‘
28 اکتوبر 1941ء کو مقبوضہ پولینڈ کا ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے ایک جگہ کیلنر نے لکھا ہے کہ ’’ایک فوجی نے مجھے بتایا کہ ہٹلر کے لئے کام کرنے والے SS گروپ کے چند ارکان کچھ یہودی مردوں اور عورتوں کو برہنہ کر کے ایک گہری کھائی کے کنارے جمع کرتے جا رہے تھے۔ پھر انہوں نے ایک ایک کر کے ان سب کے سروں پر گولیاں برسائیں اور وہ کھائی میں گرتے رہے۔ سب کو مارنے کے بعد SS کے ارکان نے ان پر مٹی ڈال دی مگر کچھ کی چیخ و پکار مجھے کافی دیر تک سنائی دیتی رہی‘‘۔
کیلنر کے مطابق عام شہریوں نے اس سے بھی زیادہ ہولناک مناظر دیکھے۔ کیلنر نے ایک اور جگہ لکھا ہے: ’’نازی وہ درندے ہیں، جن کے لیے سخت سے سخت سزا بھی کم ہے‘‘۔
کیلنر کے ایک اندازے کے مطابق 1941ء میں اموات کا ماہانہ تناسب 30 ہزار تھا۔ جیسن یونیورسٹی کے ہولوکاسٹ ادب کے تحقیقی یونٹ کے سربراہ Feuchert Sascha نے کیلنر کی ڈائری پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت حیرانی کی بات ہے کہ سرکاری ذرائع تک رسائی نہ رکھنے والے شہروں کو بھی ہٹلر کی حکمت عملی اور دور دراز علاقوں اور ممالک میں ہونے والے واقعات کا اتنا زیادہ علم تھا۔
Feuchert کہتے ہیں کہ اس ڈائری میں چونکا دینے والے اور پہلے کبھی بھی منظرِ عام پر نہ آنے والے حالات و واقعات درج ہیں۔
’’ذلت آمیز اور تشدد بھرے حراستی کیمپ‘‘
کیلنر نے اپنی ڈائری میں کئی جگہ جرمنی میں آنے والے ہنگامہ خیز دور کی پیشین گوئی کی ہے۔ انہوں نے اس وقت کے تین اخبارات ’ایس ایس نیوز پیپر‘، ’داس شوارسے کورپس‘ اور ’فوئلکر بیوباختر‘ کا ذکر کیا، جنہیں نازی پارٹی کا ترجمان مانا جاتا تھا۔
کیلنر نے 26 ستمبر 1938ء کی ایک تحریر میں لکھا تھا:’’میں چاہتا ہوں کہ اس ڈائری کے ذریعے میری اگلی نسلیں اصل واقعات سے با خبر رہیں تاکہ کوئی آج کل کے حقائق کو مسخ نہ کر سکے۔‘‘
انہوں نے نازیوں کے ’ذلت آمیز اور تشدد بھرے حراستی کیمپوں‘ کا بھی ذکر کیا ہے۔اب تک اس ڈائری کی 60 ہزار کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں اور اب پبلشرز اس ڈائری کو انگزیری زبان میں بھی شائع کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
رپورٹ: عائشہ حسن
ادارت: امجد علی