ہانگ کانگ میں دھرنا اور مظاہرے
2 جولائی 2014ہانگ کانگ میں جمہوریت کے حق میں گزشتہ روز ریلی نکالی گئی تھی۔ منتظمین کے مطابق اس ریلی میں پانچ لاکھ سے زائد شہریوں نے شرکت کی۔ اس دوران ریلی میں شریک زیادہ تر طلبہ نے شہر کے تجارتی مرکز کے سامنے دھرنا دے دیا۔ ذرائع کے مطابق بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھے ایک ہزار کے قریب مظاہرین نے شدید مزاحمت کی اور وہاں سے اٹھنے سے انکار کر دیا۔ تاہم آج بدھ کے روز پولیس انہیں زبردستی اٹھا کر لے گئی۔
عینی شاہدین کے مطابق کئی مظاہرین کو توگھسیٹتے ہوئے وہاں سے ہٹایا گیا۔ بعد ازاں پولیس نے لاتیں اور گھونسیں مارتے ہوئے مظاہرین کو بسوں میں سوار کیا۔ اس موقع پر مظاہرین چیخ رہے تھے،’’مجھے احتجاج کا حق ہے، ہمیں مظاہرے کے لیے پولیس سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں‘‘۔
دوسری جانب کچھ مظاہرین سول نافرمانی کے حق میں نعرے بازی کرتے رہے۔ مظاہرین میں شریک چُن ہوُ کے بقول ’’سول نافرمانی کا سلسلہ جاری رہے گا اور ميں ایک مرتبہ پھر مظاہرہ کرنے آؤں گا کیونکہ یہ وہ واحد طریقہ ہے، جس کے ذریعے ہانگ کانگ میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے‘‘۔ چُن ہوُ کو گرفتار کرنے کے تھوڑی دیر بعد پولیس نے انہیں رہا کر دیا تھا۔ اس دوران ان کے خلاف کوئی مقدمہ قائم نہیں کیا گیا۔
تجارتی مرکز سے ہٹنے سے انکار کرنے والے تقریباً پانچ سو افراد کو گرفتار کرتے ہوئے پولیس کے ایک تربیتی مرکز لے جایا گیا ہے، جہاں ان کے خلاف غیر قانونی اجتماع میں شرکت کرنے اور پولیس کی انتظامی کارروائیوں میں خلل ڈالنے کے الزامات کے تحت رپورٹ درج کی گئی۔ ابھی تک یہ غیر واضح ہے کہ یہ افراد کتنے عرصے تک حراست میں رہیں گے تاہم ان میں پچاس کو آج بدھ کے روز ہی رہا کر دیا گیا۔ ہانگ کانگ اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے نمائندے فرینک چیو نے بتایا، ’’ہم چاہتے ہیں کہ ہانگ کانگ کی حکومت جمہوریت کے حوالے سے شہریوں کے مطالبات پر غور کرے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ پہلا قدم ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس سمت میں مزید اقدامات اٹھائے جائیں گے۔
1997ء میں برطانیہ نے ہانگ کانگ کا انتظام چین کے حوالے کر دیا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ مظاہرے اور دھرنے بیجنگ حکومت کے لیے ایک نیا چیلنج ثابت ہو سکتے ہیں۔