کیا بوڑھا ہونا قابل استطاعت نہیں رہے گا؟
28 ستمبر 2015اقوام متحدہ کی ادارے برائے محنت ’آئی ایل او‘ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق 65 سال سے زیادہ عمر کے تقریباً تین سو ملین افراد ایسے ہیں جنہیں ضرورت پڑنے پر بھی نگہداشت کے طویل المدتی منصوبوں تک رسائی حاصل نہیں ہوتی۔ اس رپورٹ میں مزید واضح کیا گیا ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک ان افراد کی ضروریات کو نظر انداز کر رہے ہیں یا انہیں ترجیح نہیں دی جاتی۔ عالمی ادارہ محنت نے اس سلسلے میں عملی اقدامات اٹھانے کی لازمی قرار دیا۔ اس رپورٹ کو شینیا شائل آلڈنگ نے مرتب کیا ہے۔
آئی ایل او نے اپنی رپورٹ میں مزید کہا، ’’ تعصب اور بوڑھے افراد کے ساتھ منفی رویوں نے اس مسئلے میں اور بھی اضافہ کیا ہے۔ عمر کی بناء پر تعصب عالمی سطح پر پایا جانے والا ایک رجحان ہے، جس کا تعلق ضابطوں اور قوانین سے بھی ہے۔ مثال کے طور پر متعدد ایسی انشورنسز ہیں، جن کی کچھ پالیسیاں بڑی عمر کے افراد کے لیے بہت زیادہ مہنگی ہوتی ہیں اور کچھ معاملات میں تو ایسے افراد کو مخصوص طبی نگہداشت تک دینے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔‘‘
اس رپورٹ کے مطابق جاپان اور جرمنی جیسے ممالک میں دنیا کی مجموعی آبادی کا صرف5.6 فیصد رہتا ہے اور ان ممالک میں عمر رسیدہ افراد کے لیے دیکھ بھال کی بہتر سہولیات موجود ہیں۔ دوسری جانب براعظم افریقہ کے ممالک ہیں، جہاں عمر رسیدہ افراد کا نوے فیصد ضرورت کے وقت بھی ان طویل المدتی سہولیات سے محروم رہ جاتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق یورپ کے خوش حال ممالک بھی اپنی مجموعی قومی پیداوار کو صرف دو فیصد اس شعبے پر خرچ کرتے ہیں۔ اس جائزے میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ دنیا بھر میں بوڑھے افراد کی دیکھ بھال کے لیے مزید13.6 ملین افراد کی ضرورت ہے۔ آئی ایل او نے اس خدشے کو بھی رد کیا کہ آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ بوڑھا ہونا قابل استطاعت نہیں رہے گا۔