کھانے میں میٹھے کی طلب، عادت یا نشہ؟
17 دسمبر 2012کئی لوگوں میں بہت زیادہ کیلوریز والی ان اشیائے خوراک کی طلب اور چاہت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ کبھی پوری نہیں ہوتی۔ لیکن ماہرین اب یہ سوال پوچھتے ہیں کہ آیا ایسے حالات کو نشے کی عادت قرار دیا جا سکتا ہے۔
گزشتہ برس Huffington Post میں فرینک لِپ مین کا ایک مضمون شائع ہوا تھا جس میں انہوں نے یہ لکھا تھا کہ انہیں میٹھا کھانے کی عادت تھی اور پھر انہوں نے اس عادت سےچھٹکارا پانے کے لیے کون کون سے طریقے اختیار کیے۔
فرینک لِپ مین خود کو ایک integrative ڈاکٹر قرار دیتے ہیں۔ ان کے اس مضمون کے شائع ہونے کے بعد میٹھی اشیاء کھانے سے متعلق بڑی گرما گرم بحث شروع ہو گئی تھی۔ فرینک لِپ مین کا کہنا ہے کہ میٹھا کھانے کی خواہش شروع میں تو ماں کے دودھ میں پائی جانے والی قدرتی مٹھاس کی وجہ سے تیز ہو جاتی ہے اور بعد میں والدین کے اُس رویے کی وجہ سے جس کے تحت وہ اپنے بچوں کو خوش کرنے کے لیے یا پھر انعام کے طور پر اکثر انہیں میٹھی اشیاء دیتے ہیں۔
فرینک لِپ مین کے بقول جب تک انسان بالغ ہوتا ہے، تب تک اکثر لوگ یہ سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کہ میٹھا کھانے سے ان کا موڈ بہتر ہو جائے گا اور انہیں توانائی ملے گی۔
طبی ماہرین کے مطابق چوہے بھی میٹھے کو اتنا ہی پسند کرتے ہیں جتنا کہ انسان۔ سن 2007 میں فرانس میں مکمل کی گئی ایک تحقیق نے ثابت کر دیا تھا کہ کم ازکم چوہوں میں چینی بھی اتنی ہی نشہ آور ثابت ہوتی ہے جتنی کہ کوکین، نکوٹین یا پھر الکوحل۔
اس تحقیق کے دوران سائنس دانوں نے چوہوں کو پینے کے لیے دو طرح کا پانی دیا تھا۔ ایک طرح کے پانی میں میٹھا گھول دیا گیا تھا اور دوسرے میں کچھ کوکین ملا دی گئی تھی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 94 فیصد چوہوں نے پینے کے لیے میٹھے پانی کو ترجیح دی۔ پھر ایک دوسرے جائزے سے بھی ثابت ہو گیا کہ وہ چوہے جو کوکین ملا پانی پیتے تھے، جب انہیں چینی مِلے پانی کی پیشکش کی گئی، تو انہوں نے بھی کوکین والا پانی چھوڑ کر میٹھا پانی پینا شروع کر دیا تھا۔
پروفیسر فالک کیفر جرمنی کے شہر من ہائم کے رہنے والے ہیں اور وہ نشہ آور اشیاء کے استعمال سے متعلق ریسرچ کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ میٹھے کے نشے کے نام کی کسی چیز کا کوئی وجود نہیں ہے۔
پروفیسر کیفر کہتے ہیں کہ میٹھا اور ہیروئن جیسی نشہ آور اشیاء دماغ کے ایک ہی حصے پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ وہ اس حصے کو انسانی دماغ کے ’ریوارڈ سسٹم‘ کا نام دیتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خوراک کی خواہش کو ہیروئن کے نشے کے برابر قرار نہیں دیا جا سکتا۔
خوراک سے متعلقہ امور کے ایک جرمن ماہر سوین ڈیوڈ میولر کی رائے بھی یہی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ جس طرح کا نشہ ہیروئن اور کوکین استعمال کرنے والے لوگوں کی عادت ہوتا ہے، اس کا موازنہ چاکلیٹ کھانے والے کسی شخص کی عادت کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔ میولر کہتے ہیں کہ شوق سے میٹھا کھانا ایک ایسی شدید خواہش کا نتیجہ ہوتا ہے جو کچھ لوگوں میں نشے کی عادت کی حد تک شدید ہوتی ہے۔
Sven-David Müller کہتے ہیں کہ مٹھاس دراصل ایک ایسا ذائقہ ہے جسے ہم مثبت تجربہ سمجھتے ہیں۔ ان کے مطابق بچوں پر کیے گئے تجربات سے بھی یہی ثابت ہوا ہے۔ ان کے بقول میٹھی اشیاء آسانی سے ہضم ہو جاتی ہیں اور صحت کے لیے صرف نقصان دہ ہی نہیں ہوتیں۔
پروفیسر فالک کیفر کہتے ہیں، ’اگر میرا وزن معمول سے بہت زیادہ نہ ہو، میں باقاعدگی سے ورزش کروں اور اپنے دانت بھی باقاعدگی سے صاف کروں، تو نہ تو میرے دانت خراب ہو ں گے اور نہ ہی میٹھا کھانے سے مجھے ذیابیطس کی بیماری کا سامنا کرنا پڑے گا‘۔
(ij /mm (dpa