کوبانی کی جنگ، عراقی کردوں کے تازہ دستے کوبانی پہنچ گئے
1 نومبر 2014جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے حوالے سے بتایا ہے کہ پیش مرگہ نامی کرد فورسز کی دس گاڑیاں جمعے کے دن براستہ ترکی شامی کرد علاقے کوبانی میں داخل ہوئیں تو مقامی آبادی نے ان کا والہانہ استقبال کیا۔ عراقی کرد فورسز بھاری اسلحہ بشمول مشین گنوں اور اینٹی ٹینک میزائلز کے ساتھ مسلح ہیں۔
اگرچہ یہ معلوم نہیں ہے کہ ان فوجيوں کی تعداد کتنی ہے لیکن کچھ ذرائع نے بتایا ہے کہ کم ازکم ڈیڑھ سو مسلح افراد شامی کردوں کی مدد کے لیے کوبانی پہنچے ہیں۔ گزشتہ ہفتے ہی پیش مرگہ کے دس رضا کار بھی کوبانی پہنچے تھے۔ عالمی دباؤ کے بعد انقرہ حکومت نے گزشتہ ہفتے ہی حامی بھری تھی کہ وہ عراقی کردوں کو اپنی سرحدوں سے ہوتے ہوئے شامی علاقے کوبانی جانے دے گی۔
آبزرویٹری کے بقول پیش مرگہ کے تازہ دستے ایک ایسے وقت میں کوبانی پہنچے جب امریکا اور اس کے عرب اتحادی ممالک کی فضائیہ نے کوبانی کے جنوبی علاقوں میں اسلامک اسٹیٹ کے جہادیوں پر تازہ حملے کیے۔ تاہم اس کارروائی میں کسی جانی نقصان کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔ امریکی مرکزی کمان نے البتہ کہا ہے کہ جمعرات اور جمعے کو کی گئی اس تازہ فضائی کارروائی میں اسلامک اسٹیٹ کے محاذوں اور عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔
شامی کردوں نے بھی پیش مرگہ کے تازہ دستوں کی کوبانی آمد کی تصدیق کر دی ہے۔ کردوں کے ترجمان ادریس ناسان نے ڈی پی اے کو بتایا، ’’پیش مرگہ کے تمام دستے اپنے ہتھیاروں سمیت کوبانی میں بخیر و عافیت پہنچ گئے ہیں۔‘‘ یہ امر اہم کے سنی شدت پسند گروہ اسلامک اسٹیٹ کے جہادی ستمبر کے وسط سے کوبانی میں داخل ہونے کی کوشش میں ہیں لیکن مقامی کردوں اور امریکی فضائیہ کے حملوں نے ان کی پیشقدمی کو سست بنا رکھا ہے۔ ان جہادیوں کے خلاف مؤثر کارروائی اور کوبانی کے دفاع کے لیے اب عراقی کرد فورسز بھی وہاں پہنچ گئی ہیں۔ یہ امر اہم ہے کہ ترک سرحد سے ملحق شامی علاقے کوبانی کے ساٹھ فیصد حصے پر جہادیوں کا قبضہ ہے۔
ادھر ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے پیرس میں اپنے فرانسیسی ہم منصب فرنسوا اولانڈ سے ملاقات کے بعد شکایت کی کہ مغربی طاقتیں صرف کوبانی پر ہی توجہ کیوں مرکوز کیے ہوئی ہیں، ’’صرف اس علاقے میں ہی کیوں بمباری جاری ہے۔‘‘ انہوں نے فرانس اور دیگر مغربی ممالک سے سوال کیا کہ ادلب سمیت شام کے ایسے دیگر علاقوں پر حملے کیوں نہیں کیے جا رہے، جہاں اسلامک اسٹیٹ مضبوط ٹھکانے بنائے ہوئے ہے۔
ترک حکومت کا کہنا ہے کہ عالمی برادری کو شامی صدر بشار الاسد کو اقتدار سے ہٹانا چاہیے۔ ایردوآن اس تناظر میں مغربی ممالک کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ وہ بشار الاسد کی ’دہشت گرد‘ حکومت کو ختم کرنے کی کوشش نہیں رہے ہیں۔ یاد رہے کہ شام میں جہادیوں کے خلاف جاری فضائی کارروائی میں فرانس یا کوئی دوسرا مغربی ملک شریک نہیں۔ اس اتحاد میں امریکا کو صرف عرب اتحادی ممالک کا تعاون حاصل ہے۔