1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کمبھ کے تاریخی میلے میں مسلمانوں کی شرکت پر پابندی

2 دسمبر 2024

مسلمان روایتی طور پر کمبھ کے میلے کا حصہ رہے ہیں لیکن اب اُن پر ہندوستان میں اس تہوار کے دروازے بند کیے جا رہے ہیں۔ ہندو انتہا پسندوں کا مقصد ہر اس شہ کو مٹانا یا اس کی شناخت بدلنا ہے، جو کبھی مسلمانوں سے وابستہ رہی ہو۔

https://p.dw.com/p/4ndmb
روہنی سنگھ
روہنی سنگھتصویر: Privat

مجھے بچپن میں اپنے والدین کے ساتھ دسہرے کے میلے میں جانے کے دن کا ہمیشہ  بے تابی سے انتظار رہتا تھا۔ دسہرہ ایک ایسا تہوار تھا، جس میں راون کے ُپتلے کو جلا کر برائی کی شکست کا جشن منایا جاتا تھا۔ پُتلا جلانا ایک اہم رسم تھی مگر اس سے منسلک، جو چیز مجھے سب سے زیادہ متاثر کرتی تھی وہ اس پتلے کو جلانے والا شخص تھا۔ وہ شخص، جو سفید کرتہ پاجامہ اور ٹوپی میں ملبوس ہوتا، آتشبازی کا آغاز کرتا اور پتلا جلا دیتا۔

اس دوران کسی نے کبھی سوال نہیں کیا کہ یہ شخص کون ہے بلکہ سب جانتے تھے کہ یہ ایک مسلمان ہے اور اس تہوار کے  موقع پر اپنا کردار ادار کر رہا ہے۔ چونکہ مسلمان ہی اکثر آتش بازی وغیرہ کا کام کرتے تھے، اس لیے راون کو جلانے اور اس کا پتلا بنانے کا سارا کام مسلمانوں کے ہی ذمےّ ہوتا تھا۔ مگر اب تین دہائیوں بعد منظر نامہ  بلکل مختلف ہے۔ آج ہم جس دور میں زندگی گذار رہے ہیں، وہ اس سے بلکل مختلف ہے، جو میں نے بے بچپن میں دیکھا ہے۔ آج ہندوستان میں سخت نظریات والے ہندوکسی مسلمان کے ساتھ کسی بھی قسم کا سماجی تعلق قائم کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اتر پردیش، جو کبھی اپنے گنگا جمنا تہذیب کے لیے جانا جاتا تھا، آج مسلمانوں کے ساتھ روایتی تعلقات توڑنے میں سب سے آگے ہے۔

ہندوستان میں کمبھ میلا ایک انتہائی اہم تہوار سمجھا جاتا ہے، جو ہر بارہ سال بعد منایا جاتا ہے اور اس میں لاکھوں لوگ شریک ہوتے ہیں۔ یہ تہوار بھارت کی اہم ندیوں گنگا اور جمنا  کے سنگم پر منعقد کیا جاتا ہے۔ شاید جن بزرگوں نے اس میلے کو شروع کیا تھا، ان کا مقصد یہی رہا ہوگا کہ عوام کا آپس میں میل جول بڑھے۔ تفریح، پوجا وغیرہ کے ساتھ ساتھ کاروباری اور ہنرمند افرادکو اپنی مصنوعات بیچنے کے مواقع ملیں۔ لیکن اب کمبھ میلے میں ملک کی ایک بڑی آبادی کی جانب سے مسلمانوں کی شرکت پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں پریاگ راج میں تیرہ  ہندو اکھاڑوں کی اعلیٰ گورننگ باڈی یا اکھل بھارتیہ اکھاڑہ پریشد  نے مطالبہ کیا کہ مسلمان کمبھ میلے میں کاروبار کرنے کے لیے دکانیں نہ لگائیں اور انہیں کمبھ میلے کے دوران کھانے پینے کے اسٹال لگانے یا پوجا میں استعمال ہونے والی اشیاء فروخت کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔

 اس ہندو تنظیم  نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ کمبھ میلے کی سکیورٹی کے لیے صرف ہندو سکیورٹی اہلکاروں کو تعینات کیا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ مسلمانوں کو کمبھ میلے میں کوئی بھی فعال کردار ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ اس مطالبے کی مسلمانوں کی بعض نمائندہ جماعتوں نے شدید مخالفت کی ہے، کیونکہ یہ مسلمانوں کے ساتھ ایک طرح کی عدم رواداری اور امتیازی سلوک کی علامت ہے۔

ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں اور اسلام سے جڑی ہوئی کسی بھی چیز کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مثال کے طور پر، کمبھ میلے کے دوران جو رسومات ادا کی جاتی ہیں، ان میں سے متعدد کو بدلنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 'شاہی اشنان‘، جو گنگا میں مقدس غسل ہے، اس لفظ کو بدلنے کی بات کی جا رہی ہے کیونکہ یہ لفظ فارسی زبان کا ہے۔ اسی طرح 'پیشوائی‘، جو کہ ناگا سادھوؤں کے جلوس کے لیے استعمال ہوتا ہے، اس کو بھی تبدیل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ ایسی تبدیلیوں کا مقصد صرف مسلمانوں کو الگ تھلگ کرنا نہیں بلکہ ان کی اس ثقافت اور تاریخ کو بھی مٹانا ہے، جو ہندوستان کی گنگا جمنا تہذیب کا حصہ رہی ہے۔ اودھ کا علاقہ ہمیشہ ہندو مسلم بھائی چارے کی مثال رہا ہے، جہاں مختلف تہوار مل کر منائے جاتے تھے۔ لیکن آج وہی علاقہ فرقہ وارانہ تنازعوں کی نظر ہو چکا ہے۔

اودھ کے علاقے میں ہندو مسلم ہم آہنگی مثالی رہی ہے ۔ ہمانشو باجپائی کی کتاب ''قصہ لکھنوا‘‘ میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا گیا ہے، ایک مرتبہ جب ہولی اور محرم ایک ہی دن پڑ گئے، یہ دونوں مواقع ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں، ہولی خوشی کا تہوار ہے اور محرم غم کا موقع۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لیے اودھ کے نواب نے اپنے مشیروں سے مشورہ کیا اور فیصلہ کیا کہ ہولی صبح میں منائی جائے گی اور محرم شام کے وقت۔ یہ حل دونوں کمیونٹیز کے درمیان مفاہمت کی علامت بن گیا۔ آج کے دور میں، ایسے حل کا تصور بھی محال ہے۔ اب اس قدر عدم برداشت بڑھ چکی ہے کہ ہندو اپنے تہواروں میں مسلمانوں کی موجودگی تک برداشت نہیں کرتے۔ ایودھیا کی رام لیلا، جو کبھی ہندو مسلم اتحاد کی مثال تھی، آج تک مسلمان اس کی میزبانی کرتے آ رہے ہیں، مگر موجودہ حالات میں اس روایت کا برقرار رہنا شک و شبہات کے دائرے میں آ چکا ہے۔

ہندوستانی مسلمان کمبھ میلے سے صدیوں سے جڑے رہے ہیں۔ مغل بادشاہوں نے بھی کمبھ میلے میں شرکت کی تھی۔ جہانگیر نے 1620ء میں کمبھ میلے میں شرکت کی تھی اور بادشاہ اکبر نے اپنی بیویوں کے لئے ہریدوار میں ایک محل تعمیر کرایا تھا۔ اکبر کے دور میں مسلمان نہ صرف کمبھ میں شامل ہوتے تھے بلکہ ان کی بیویاں بھی اس میں شریک ہوتی تھیں۔ اس کے بعد گنگا کے پانی کو خصوصی طور پر آگرہ لے جایا جاتا تھا۔ مگر اب مسلمانوں کے کمبھ میں شریک ہونے کی توقع نہیں کی جاتی اور انہیں اس اہم تہوار سے الگ رکھا جا رہا ہے۔

آج کے ہندوستان میں ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ جو شہروں اور علاقوں کے اسلامی نام ہیں، ان پر اعتراض کیا جا رہا ہے۔ مغل سرائے کا نام بدل کر پنڈت دین دیال اپادھیائے نگر، اور الہٰ آباد کا نام بدل کر پریاگ راج کر دیا گیا ہے۔ اس تبدیلی کے پیچھے ایک واضح مقصد ہے: مسلمانوں کی تاریخ اور ثقافت کو مٹانا اور ان کی شناخت کو کمزور کرنا۔

اگر اودھ کے نواب اور شہنشاہ اکبر آج کے ہندوستان کو دیکھیں تو شاید وہ حیرانی اور غم کا شکار ہوں گے کہ وہ جو تاریخ اور وراثت چھوڑ گئے تھے، آج اسے کیسے پامال کیا جا رہا ہے۔ ہندوستان کی گنگا جمنا تہذیب، جو مسلمانوں اور ہندوؤں کے درمیان محبت اور بھائی چارے کی علامت تھی، آج ایک غیرمتوازن سماج میں تبدیل ہو چکی ہے۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Rohinee Singh - DW Urdu Bloggerin
روہنی سنگھ روہنی سنگھ نئی دہلی میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔