کرسمس ٹرین، مسیحیوں کے لیے تحفہ
22 دسمبر 2016یہ ٹرین کرسمس کی روشنیوں (Lights) اور ایک سنو مین سے سجائی گئی ہے۔ اس ٹرین پر پاکستان کی کامیاب اور اہم مسیحی شخصیات کی تصاویر بھی ہیں تاکہ پاکستان کے لیے ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جاسکے۔ پاکستانی حکومت کی رائے میں ان کی کوشش ہے کہ مسلمان اکثریتی ملک میں عوام کے ذہنوں کو اقلیتوں کے حوالے سے تبدیل کیا جاسکے۔
پاکستان کی 200 ملین آبادی میں لگ بھگ 1.6 فیصد مسیحیوں پر مشتمل ہے۔ ایک عام تاثر یہی ہے کہ مسیحیوں کی اکثریت سیاسی و سماجی و اقتصادی مرکزی دھارے میں شامل نہیں ہے۔ بیشتر مسیحی برادری کے لوگ انتہائی کم تنخواہوں والی نوکریوں پر گزر بسر پر مجبور ہیں۔ اس کے علاوہ ان میں سےکچھ کو توہین مذہب کے فوجداری قانون کا بھی سامنا رہتا ہے۔ کچھ مسیحی افراد کو اِس قانون کے تحت مجرم بھی قرار دیا جاچکا ہے۔
پاکستان میں انسانی حقوق کے وزیر کامران مائیکل نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا، ’’ یہ ٹرین برداشت اور امن کی علامت ہے، سب کرسمس کو مل کر منائیں۔ یہ ٹرین جہاں جہاں رکے گی وہاں لوگ اسے دیکھنے آسکتے ہیں۔‘‘ ایگنس نامی ایک کیتھولک مسیحی خاتون، جو ٹرین کو دیکھنے اسلام آباد میں موجود تھیں کا کہنا ہے،’’ میرے لیے یہ محض ایک تقریب تھی، لیکن مجھے فخر ہے کیوں کہ یہ ایک پہلا قدم ہے، ہم دعا گو ہیں کہ مستقبل میں ہم کرسمس امن اور رواداری کے ساتھ منا سکیں گے۔‘‘
اس ٹرین کو جمعرات کے روز اسلام آباد سے پشاور روانہ کیا گیا اور کرسمس کے روز یہ ٹرین لاہور سے پشاور جائے گی اور وہاں سے کراچی پہنچے گی۔ پاکستان میں مذہنی اقلیتوں پر تشدد اور ان کے ساتھ تعصب ایک عام رویے کا روپ دھار چکا ہے۔ اس برس لاہور میں ایسٹر کے موقع پر ایک تفریحی پارک میں کیے گئے ایک حملے میں 73 افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ طالبان نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے مسیحیوں کو نشانہ بنایا ہے۔