کابل کی امریکی یونیورسٹی پر حملے میں دس افراد ہلاک
25 اگست 2016ان ہلاک شدگان میں سات طلبا اور دو پولیس اہلکاروں کے علاوہ ایک سکیورٹی گارڈ بھی شامل ہے۔ افغان وزارت داخلہ کے ترجمان صدیق صدیقی نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ’’اس حملے کی ذمہ داری ابھی تک کسی گروپ نے قبول نہیں کی۔‘‘ دوسری طرف افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی اس حملے میں طالبان کے ممکنہ کردار کے بارے میں کوئی واضح موقف اختیار نہیں کیا۔
کابل میں ملکی وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا، ’’زیادہ تر افراد اپنے کلاس رومز کے قریب اور کھڑکیوں سے کی جانے والی فائرنگ کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ اس حملے میں سات پولیس اہلکاروں سمیت 37 افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔‘‘
اس امریکی یونیورسٹی پر حملے کا آغاز گزشتہ شب سات بجے کے قریب ہوا تھا، جب ایک گاڑی میں سوار ایک خود کش حملہ آور نے یونیورسٹی کے گیٹ پر دھماکا کر کے دیواروں کو تباہ کر دیا۔ اس کے بعد دو دہشت گرد یونیورسٹی میں داخل ہوگئے۔ صدیقی کا کہنا تھا کہ دہشت گرد دستی بموں اور خودکار ہتھیاروں سے مسلح تھے۔ یونیورسٹی پر یہ حملہ قریب نو گھنٹے تک جاری رہا۔ اس دوران پولیس نے ان دونوں دہشت گردوں کو علی الصبح ساڑھے تین بجے کے قریب ہلاک کر دیا۔ پولیس کے مطابق اس دوران 150 کے قریب طلبا کو بحفاظت یونیورسٹی سے باہر ایک محفوظ مقام پر پہنچا دیا گیا تھا۔
کابل کی اس امریکی یونیورسٹی کا قیام سن 2006 میں عمل میں آیا تھا، جس کا مقصد افغان طالب علموں کو امریکی طرز پر لبرل آرٹس کی تعلیم کا موقع فراہم کرنا تھا۔ اس یونیورسٹی میں لگ بھگ ایک ہزار طلبا و طالبات زیر تعلیم ہیں۔
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق اس کے ایک فوٹوگرافر مسعود حسینی اس حملے کے وقت پندرہ دیگر طلبا کے ہمراہ ایک کلاس روم میں موجود تھے، جب انہوں نے یونیورسٹی کے جنوبی حصے سے ایک دھماکے کی آواز سنی تھی۔ حسینی کے مطابق، ’’میں نے کھڑکی سے سادہ لباس میں ملبوس ایک شخص کو دیکھا، اس نے میری طرف گن کر کے فائرنگ کی۔ کھڑکی کے شیشیے ٹوٹنے سے میں زمین پر گر گیا تھا۔‘‘ حسینی کے بقول اس واقعے کے بعد طلبا نے دروازے کے آگے کرسیاں اور میزیں رکھ دیں اور زمین پر لیٹ کر خود کو چھپانے کی کوشش کی۔ ’’اس کلاس روم میں کم از کم دو دستی بم پھینگے گئے تھے، جن کے پھٹنے سے متعدد طلبا زخمی ہو گئے۔‘‘
حسینی کے مطابق بعد میں نو کے قریب طلبا وہان سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ حسینی نے اے پی کو بتایا، ’’جب ہم بھاگ رہے تھے، تو میں نے کچھ لوگوں کو زمین پر گرے دیکھا۔ ایسا لگ رہا تھا کہ انہیں کمر پر گولیاں ماری گئی تھیں۔‘‘
امریکا نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسے ’افغانستان کے مستقبل‘ پر حملہ قرار دیا ہے۔ پینٹاگون کا کہنا ہے کہ حملہ آوروں کے خلاف موقع پر کارروائی کے وقت افغان سکیورٹی افواج کے ساتھ ساتھ امریکی فوجی مشیر بھی وہاں موجود تھے۔