1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
معاشرہافغانستان

کابل میں گھر بہت مہنگے، لگژری ہاؤسنگ کی مانگ میں واضح اضافہ

6 دسمبر 2024

کابل میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری آنے کے باعث بیرون ملک جانے والے افغان اپنے گھروں کی طرف واپس لوٹ رہے ہیں، جس کے نتیجے میں جائیداد کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود فروخت میں بھی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

https://p.dw.com/p/4npAm
کابل شہر میں ایک گھر کے باہر ایک شخص پودوں کو پانی دے رہا ہے
طویل جنگ کے بعد کابل میں حالات سنبھلنے لگے ہیں اور بیرون ملک ملازمت کرنے والے افغان اب اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے ہیںتصویر: Siddiqullah Alizai/AP Photo/picture alliance

کابل میں ایک پراپرٹی ایجنٹ نو بیڈروم اور نو باتھ روم پر مشتمل ایک حویلی فروخت کر رہے ہیں، جس کی قیمت 450000 ڈالر ہے۔ یہ ایک بہت بڑی رقم ہے، خصوصاً افغانستان جیسے ملک میں جہاں زیادہ تر لوگ اپنے گزر بسر کے لیے بیرونی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔ یہاں زیادہ تر لوگوں کے بنک اکاونٹس بھی نہیں ہوتے اور قرضوں پر گھر خریدنا بھی عام نہیں ہے۔ اس کے باوجود بھی کچھ لوگ اس قیمت پر گھر خریدنا چاہتے ہیں۔

امید اللہ کا کہنا ہے کہ، ’’یہ ایک غلط فہمی ہے کہ افغانوں کے پاس پیسہ نہیں ہے۔ افغانستان میں بڑے بڑے کاروباری افراد ہیں جن کے بیرون ملک بڑے کاروبار ہیں۔ یہاں ایسے گھر بھی ہیں جن کی قیمتیں ملین ڈالرز میں ہیں۔‘‘

افغان اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں

افغانستان میں طویل عرصے کی جنگ اور تباہی کے بعد اب حالات بہتر ہو گئے ہیں۔ اس لیے سالوں تک بیرون ملک ملازمت کرنے والے افغان باشندے اب اپنے وطن واپس لوٹ رہے ہیں۔  

غلام محمد حق دوست کے مطابق، طالبان کے اقتدار میں آنے سے پہلے کابل میں لوگ سرمایہ کاری کرنے سے ڈرتے تھے۔ تاہم اب طالبان حکومت کے اقدامات کے باعث سرمایہ کاری کے لیے ماحول سازگار ہوا ہے۔ 

انجینئر اپنے دفتر میں گاہکوں سے ایک گھر کے ڈیزائن کے حوالے سے بات کر رہے ہیں
طالبان حکومت کے اقدامات کے باعث سرمایہ کاری کے لیے ماحول سازگار ہوا ہےتصویر: Siddiqullah Alizai/AP Photo/picture alliance

طالبان کے اقتدار میں آنے اور بین الاقوامی افواج کے انخلا کے بعد تشدد میں کمی کے باعث شہر کے حالات میں بہتری آئی ہے۔ اس کے ساتھ طالبان نے قانونی و تجارتی معاملات میں سخت قوانین کے نفاذ کے ساتھ کرپشن کے خاتمے کا عہد کیا ہے۔

حق دوست اس بات پر خوش ہیں کہ نئی حکومت کے آنے کے بعد انتظامی امور میں کسی قسم کی پیچیدگیاں یا تاخیر نہیں ہوتی۔

حق دوست نے بتایا کہ، ’’گزشتہ تین سالوں میں جائیداد کی قیمتوں میں تقریباً 40 فیصد اضافہ ہوا ہے اور اس دوران انہوں نے 400 سے زائد جائیدادیں فروخت کی ہیں۔ جبکہ پہلے ایسا نہیں تھا۔‘‘

تعمیراتی شعبے میں بہتری کے آثار

امید اللہ اور حق دوست کے گاہک چاہتے ہیں کہ گھر میں ایک باغ، ورزش کے لیے جم، گرم پانی کا حمام، سوئمنگ پول، مہمانوں کے لیے کمرے اور کم از کم ایک باورچی خانہ ہو۔ مہمان نوازی افغان ثقافت کا ایک اہم حصّہ ہے اور اس گھروں کی تعمیر میں بھی اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ گھر میں مہمانوں کے لیے بھی مناسب انتظام موجود ہو۔

کابل کے ایک لگژری گھر کا اندرونی منظر
چونکہ زیادہ تر گاہکوں کا تعلق بیرون ملک سے ہے اس لیے ان کے ذوق و پسند بھی عالمی معیار کے مطابق ہیںتصویر: Siddiqullah Alizai/AP Photo/picture alliance

حق دوست کے زیادہ تر گاہکوں کا تعلق بیرون ملک سے ہے۔ ان کے ذوق و پسند بھی عالمی معیار کے مطابق ہیں۔ وہ گھروں میں ڈائننگ ٹیبل اور بیڈ چاہتے ہیں جبکہ افغانستان میں عام طور پر لوگ فرش پر سوتے اور کھانا کھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب گھر بھی ان گاہکوں کی ترجیحات کے مطابق تعمیر کیے جا رہے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ مقامی حکام بھی شہر کو مزید پرکشش اور رہنے کے قابل بنانے کے لیے سڑکوں کی تعمیر اور مرمت، سٹریٹ لائٹس کی تنصیب، درخت لگانے اور کچرا صاف کرنے میں مصروف ہیں۔ مزید برآں وہ شہریوں کو مناسب قیمتوں پر رہائشی سہولیات کی فراہمی کے لیے بھی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

کابل سے باہر پرتعیش رہائش

جو لوگ استطاعت رکھتے ہیں، وہ شہر کے باہر قرغہ کے آبی ذخیرے کے کنارے، شاندار اور مہنگے گھروں کا انتخاب کرتے ہیں۔

کابل میں واقع ایک لگژری گھر
جو لوگ قابل استطاعت ہیں وہ شہر کے باہر قرغہ کے آبی ذخیرے کے کنارے، شاندار اور مہنگے گھروں کا انتخاب کرتے ہیںتصویر: Siddiqullah Alizai/AP Photo/picture alliance

طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد، خواتین اس علاقے میں اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ آتی تو ہیں لیکن وہ زیادہ دیر یہاں قیام نہیں کرتیں۔ کیونکہ کچھ حکومتی اہلکار آبی ذخیرے کے قریب واقع ایک چیک پوائنٹ پر تعینات ہیں۔

ایک افغان شہری اراش اسد بھی ایک گھر فروخت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو کہ ان کے چچا کی ملکیت ہے۔ 4000 مربع میٹر کے رقبے پر پھیلی اس جائیداد کی قیمت آٹھ لاکھ ڈالر ہے۔

اراش اسد کہتے ہیں کہ، ’’لوگ سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں روزگار نہیں ہے۔ تاہم افغانوں نے گزشتہ برسوں میں جائز اور ناجائز طریقوں سے بہت پیسہ کمایا ہے۔‘‘

ح ف / ص ز  (اے پی)

طالبان کے اقتدار کا ایک سال، بچیوں پر کیسا بیتا؟