ڈیوڈ میلپاس ورلڈ بینک کے نئے صدر منتخب
6 اپریل 2019میلپاس کا انتخاب جم یونگ کِم کے اچانک مستعفی ہونے کے بعد کیا گیا۔ بینک کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ امریکا کے نائب وزیر خزانہ برائے بین الاقوامی امور ڈیوڈ میلپاس منگل نو اپریل سے اپنی ذمہ داریاں سنبھالیں گے۔ اسی روز ورلڈ بینک اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کی بہاریہ میٹنگ کا آغاز ہو گا۔
63 سالہ میلپاس نے روئٹرز کو بتایا کہ وہ بینک کی طرف سے دنیا میں غربت کم کرنے کی بنیادی پالیسی کو مستحکم بنائیں گے۔ یہ امر اہم ہے کہ گزشتہ برس انہی کی کوششوں سے امریکا نے ورلڈ بینک کے لیے تیرہ بلین امریکی ڈالر کی فراہمی کا وعدہ کیا تھا۔ وہ عالمی بینک کے قرضہ دینے کے حوالے سے شفاف پالیسی کی وکالت بھی کرتے رہے ہیں۔
ڈیوڈ میلپاس نے ورلڈ بینک کا صدر منتخب ہونے کے بعد اس بینک کے ملازمین کے نام ایک خط بھی تحریر کیا ہے۔ انہوں نے ملازمین پر واضح کیا کہ دنیا بھر میں سات سو ملین افراد انتہائی غربت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں اور کئی ایسے لوگ بھی ہیں جن کی روزمرہ کی زندگی میں ابھی تک بہتری کے آثار بھی ظاہر نہیں ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید بیان کیا کہ بینک کے دو سب سے بڑے چیلنج ہیں، ان میں ایک دنیا بھر سے غربت کا خاتمہ اور دوسرا خوشحالی میں شراکت۔
ڈیوڈ میلپاس کے انتخاب کے حوالے سے ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ اس منصب کے لائق نہیں ہیں کیونکہ وہ سن 2008 کے عالمی اقتصادی بحران کا پیشگی جائزہ لینے میں ناکام رہے تھے۔ اُس وقت اُن کے مالیاتی تجزیوں کے منفی اثرات مرتب ہوئے۔ امریکا سمیت کئی ملکوں کو اقتصادی بحران کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ وہ چھ برس تک ایک عالمی سرمایہ کاری بینک بیر اسٹیئرنز (Bear Stearns) کے چیف اکانوسٹ بھی رہ چکے ہیں۔ انہی کے دور میں اقتصادی بحران کے نتیجے میں یہ ادارہ دیوالیہ ہوا تھا۔ وہ سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش کی انتظامیہ کا حصہ بھی رہے تھے۔
گزشتہ تہتر برسوں سے عالمی بینک کا صدر امریکی صدر ہی نامزد کرتا چلا آ رہا ہے۔ اس کی وجہ ورلڈ بینک کے ایگزیکٹو بورڈ میں امریکا کا سولہ فیصد کا اختیار خیال کیا جاتا ہے۔ امریکا کو یورپی ممالک کی حمایت بھی حاصل ہوتی ہے۔ اس کی بڑی وجہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کا سربراہ یورپ سے لیے جانے پر اتفاق ہے۔