ڈاکیے چاہے جرمن ہوں، کتے تو کاٹیں گے: سالانہ ڈیڑھ ہزار زخمی
27 نومبر 2016جرمنی کے مالیاتی اور کاروباری مرکز فرینکفرٹ سے اتوار ستائیس نومبر کو ملنے والی نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی رپورٹوں کے مطابق ڈوئچے پوسٹ کے سربراہ فرانک آپَیل نے اخبار ’بِلڈ اَم زَونٹاگ‘ میں آج شائع ہونے والے اپنے ایک انٹرویو میں کہا کہ جرمن پوسٹ، جو ماضی میں ایک سرکاری ادارہ تھی اور برسوں پہلے نج کاری کے بعد سے ملک کی سب سے بڑی پوسٹل کمپنی ہے، کے لیے کام کرنے والے ڈاکیوں کی تعداد ایک لاکھ کے قریب ہے۔
ڈوئچے پوسٹ کے سربراہ نے کہا، ’’ہمارے ادارے کے ڈاک تقسیم کرنے والے خواتین و حضرات کو خاص طور پر یہ تربیت بھی دی جاتی ہے کہ اچانک کسی خطرناک کتے کا سامنا ہو جانے پر انہیں کیا کرنا چاہیے۔‘‘
اس کے باوجود ان مردوں اور خواتین میں سے ہر سال قریب 1500 کو کتے کاٹ لیتے ہیں۔ ’’کسی کتے کی طرف سے کاٹے جانے کے نتیجے میں زخمی ہونے پر ایسے ملازمین کو اپنا علاج بھی کرانا ہوتا ہے اور علاج کے عرصے کے دوران وہ کام پر بھی نہیں آ سکتے۔‘‘
اپنے اس انٹرویو میں ڈوئچے پوسٹ کے سربراہ آپَیل نے جرمن صارفین سے یہ درخواست بھی کی کہ اگر کسی کے گھر میں کوئی خطرناک کتا ہو اور دروازے پر یا گلی میں ڈاکیا کھڑا ہو، تو اپنی ڈاک وصول کرنے والے شہری کو اس دوران اپنے کتے کو گھر کے اندر ہی رکھنا چاہیے۔
ڈاکیوں کے بجائے ڈرونز
ایک سوال کے جواب میں فرانک آپَیل نے بتایا کہ ان کا ادارہ عام خطوط اور پیکٹوں کی شہریوں کو ترسیل کے لیے بہت چھوٹے کارگو ڈرونز کے ممکنہ استعمال پر اپنی ریسرچ جاری رکھے ہوئے ہے تاہم پوسٹل ڈرونز کے استعمال سے پہلے اس بارے میں حکومت کی طرف سے واضح قانون سازی لازمی ہو گی۔
پوسٹل ڈرونز کے ممکنہ استعمال کے حوالے سے یہ بات بھی اہم ہے کہ انہیں استعمال کرنے والے پوسٹل ملازمین کو اس حوالے سے باقاعدہ لائسنس بھی لینا پڑیں گے۔
جرمنی میں ایسے پوسٹل ڈرونز کا تجرباتی استعمال جاری ہے اور فی الحال انہیں صرف بہت دور افتادہ مقامات پر ڈاک کے ذریعے ادویات وغیرہ کی ترسیل کے لیے ہی استعمال کیا جاتا ہے۔