ڈالر، یورو کےمقابلے میں کیوں گر رہا ہے؟
2 ستمبر 2020سونا، جاپانی کرنسی ین اور امریکی ڈالر ایسے مالیاتی اثاثے ہیں جن پر سرمایہ کار ہمیشہ ہی اعتبار کرتے ہیں۔کسی مالیاتی بحران کی صورت میں ان میں سرمایہ کاری کو محفوظ تصور کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی قیمت میں اضافہ ہی دیکھا جاتا ہے۔
کورنا وائرس کے سبب ممکنہ اقتصادی بحران کے خطرات کے اس دور میں رواں موسم گرما کے دوران سونے کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ دیکھا گیا اور توقع ہے کہ یہ سلسلہ ابھی جاری رہے گا۔
امریکی ڈالر جو کورونا کی وبا پھوٹنے سے بھی بہت پہلے سے یعنی گزشتہ نو برس سے مسلسل اپنی قدر بڑھا رہا تھا، مالیاتی ماہرین کے لیے حیرانی کا سبب بنا جب رواں برس مارچ کے وسط میں اس کی قدر نے بلندی کا نیا ریکارڈ قائم کیا۔
مگر اس کے بعد سے امریکی ڈالر کی قیمت میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔ مارچ کے مقابلے میں اس کی قیمت میں 10 فیصد تک کمی واقع ہو چکی ہے۔
گزشتہ ماہ ڈالر کی قدر میں کمی کے حوالے سے ایک دہائی کا بد ترین مہینہ ثابت ہوا۔ صرف یہی نہیں بلکہ منگل یکم ستمبر کو تو ڈالر کی قیمت دو برس کی نچلی ترین سطح پر پہنچ گئی۔
یورو، ڈالر کی مضبوط ترین حریف کرنسی
برانڈ وائن گلوبل انویسٹمنٹ منیجمنٹ سے منسلک جیک میکنٹائر کے مطابق ڈالر ''طویل عرصے سے اپنی قدر سے زیادہ قیمت پر موجود ہے‘‘ جس کا نتیجہ اب اس کی قیمت میں کمی کی صورت میں سامنے آ سکتا ہے۔
ان حالات میں ماہرین اب دنیا کی دوسری سب سے بڑی ریزرو کرنسی یورو کی بات کر رہے ہیں جو ڈالر کی سب سے بڑی حریف سمجھی جاتی ہے۔ یورپ کی اس مشترکہ کرنسی کی قدر میں مارچ سے اب تک 12 فیصد کا اضافہ ہو چکا ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یورپی یونین کی طرف سے کورونا کی وبا کے دور میں معیشت کو سہارا دینے کے لیے 750 بلین یورو کا امدادی پیکچ بھی بنا اورکورونا نمٹنے کی بہتر قابلیت بھی۔
اس کے علاوہ کورونا کے سبب معیشت کو پہنچنے والے نقصان سے نمٹنے کی یورپی صلاحیت بھی بظاہر امریکا سے کہیں بہتر دکھائی دے رہی ہے جو اصل میں یورو کی قدر میں بہتری کی وجہ ثابت ہو رہی ہے۔
بعض سرمایہ کاروں کا خیال ہے کہ یورو کی قدر جلد ہی 1.25 امریکی ڈالرز کے برابر ہو جائے گی۔ منگل یکم ستمبر کو کرنسی مارکیٹ میں یورو کی قدر پہلی مرتبہ 1.2 ڈالر تک پہنچی۔
ا ب ا / ش ج (اووے ہیسلر)