چینی وزیراعظم کا ’تجارتی جنگ‘ پر امریکا کو انتباہ
15 مارچ 2017چین کے سالانہ پارلیمانی سیشن کے اختتام پر ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے چینی وزیر اعظم کا کہنا تھا، ’’ہم یہ نہیں دیکھنا چاہتے کہ دونوں ممالک کے درمیان کوئی اقتصادی جنگ شروع ہو۔ اس سے ہماری تجارت منصفانہ نہیں رہے گی۔‘‘
لی کیچیانگ کے مطابق، ’’اس بات سے قطع نظر کہ حالات چین امریکا تعلقات کو کس طرف لے جاتے ہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ یہ تعلقات مثبت سمت میں آگے بڑھتے رہیں گے۔‘‘
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق چین اور امریکا کے درمیان بات چیت ہو رہی ہےکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے چینی ہم منصب شی جِن پنگ کے درمیان ایک ملاقات کا بندوبست کیا جائے تاکہ ٹرمپ کی انتخابی مہم کے دوران ان کے بیانات کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان جو تناؤ پیدا ہوا اس کا خاتمہ ہو سکے۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے دھمکی دی تھی کہ اگر وہ اقتدار میں آئے تو وہ چین کے ساتھ کئی دہائیوں سے جاری آزادانہ تجارت کے اصول پر نظرثانی کریں گے۔ ان بیانات کے سبب ان خطرات کا اظہار کیا گیا تھا کہ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد امریکا اور چین کے درمیان ایک اقتصادی جنگ شروع ہو سکتی ہے۔
انتخابی کامیابی کے بعد ٹرمپ نے مروجہ سفارتی آداب سے روگردانی کرتے ہوئے تائیوان کی صدر کو براہ راست ٹیلی فون کیا تھا جس کی وجہ سے چین کی طرف سے شدید خفگی کا اظہار کیا گیا تھا۔
تاہم شی جن پِنگ کی طرف سے گزشتہ ماہ امریکی صدر کو فون کال کے دوران اس معاملے کو بہتر کرنے کی کوشش کی گئی جس میں امریکی صدر نے یقین دہانی کرائی کہ وہ ’’ون چائنا‘‘ پالیسی پر عمل پیرا رہیں گے۔ اس پالیسی کا مطلب ہے کہ تائیوان پر چینی نقطہ نظر کو تسلیم کیا جاتا ہے۔
شی جِن پنگ اور ٹرمپ کی اسی ٹیلی فون کال کے حوالے سے چینی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ وہ باہمی تعلقات میں ’’روشن امکانات‘‘ دیکھتے ہیں: ’’مجھے یقین ہے کہ جو بھی اختلافات ہوں، ہم پھر بھی مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے مل بیٹھ کر ایک دوسرے سے بات کر سکتے ہیں۔‘‘
چینی وزیراعظم نے اس پریس کانفرنس کے دوران ایک رپورٹ کا بھی حوالہ دیا جس کے مطابق اگر اقتصادی جنگ شروع ہوتی ہے تو ’’غیر ممالک میں سرمایہ کاری رکھنے والی کمپنیاں، خاص طور پر امریکی کمپنیوں کو اس کا نقصان ہو گا۔‘‘
اُن کا کہنا تھا کہ چین عالمی معیشت میں ایک مستحکم ستون کے طور پر اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔