چین کے پہلے آزاد تجارتی زون میں انٹرنیٹ کی آزادی
24 ستمبر 2013خبر رساں ادارے اے ایف کے مطابق چینی اخبار نے حکومتی ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے، ’’غیر ملکی کمپنیوں کی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کرنے کے لیے ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم کس طرح انہیں ایسا ماحول فراہم کر سکتے ہیں جہاں وہ آزادی سے کام کر سکیں۔ اگر وہ فیس بک تک یا نیو یارک ٹائمز تک رسائی حاصل نہیں کر سکیں گے تو وہ یقینا سوچیں گے کہ آزاد تجارتی زون، چین سے کس طرح مختلف ہے‘‘۔
چین کے تجارتی دارالحکومت میں قائم اس زون میں میں غیر ملکی ٹیلی کمیونیکشن کمپنیوں کو لائسنس حاصل کرنے کے لیے بولی میں حصہ لینے کی اجازت ہو گی۔
چینی سنسر شپ حکام آن لائن مواد کو انتہائی سختی سے کنٹرول کرتے ہیں کیونکہ انہیں خوف ہے کہ یہ سیاسی یا سماجی بے چینی کا باعث بن سکتا ہے جس سے حکمران کمیونسٹ پارٹی کی اقتدار پر گرفت بھی چیلنج ہو سکتی ہے۔
چینی حکام نے گزشتہ کچھ سالوں میں سماجی رابطے کی ویب سائٹس، فیس بک اور ٹویٹر پر پابندی عائد کی ہے کیونکہ 2010ء کے اواخر میں انہی ویب سائٹس نے مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کی انقلابی تحریکوں میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اسی طرح گزشتہ برس چینی حکام نے نیو یارک ٹائمز پر اس وقت پابندی عائد کر دی تھی جب اس نے سابق وزیراعظم وین جیا باؤ کے رشتے داروں کے پاس 2.7 بلین ڈالرز کے اثاثوں کا کنٹرول ہونے کے ریکارڈز شائع کیے تھے۔
گزشتہ مہینوں میں چینی حکام نے چین کی اپنی سماجی رابطے کی ویب سائٹ کو بھی سختی سے سنسر کرنا شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے آن لائن افواہیں پھیلانے والے سینکڑوں افراد کو حراست میں لیا ہے اور ہائی پروفائل بلاگرز کو زیادہ مثبت تبصرے پوسٹ کرنے کے لیے کہا ہے۔
شنگھائی کے آزاد تجارتی زون کی منظوری چین کے ریاستی کونسل کی جانب سے دی گئی ہے تاکہ دنیا کی دوسری بڑی معیشت میں بین الاقوامی تجارت اور مالیات کا ایک حقیقی مرکز قائم کیا جا سکے۔