چین نے نئی طرز کا جنگی بحری جہاز ’سیچوان‘ لانچ کر دیا
27 دسمبر 2024چین کے اس نئے 'اسالٹ شپ‘ میں ایسی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے جس کے تحت لڑاکا طیارے 'الیکٹرو میگنیٹک فورس‘ کے ذریعے براہ راست ہی اس جہاز کے ڈیک پر اتر اور وہاں سے پرواز کر سکیں گے۔
عوامی جمہوریہ چین نے جنگوں میں حملوں کے لیے استعمال ہو سکنے والا اور نئی طرز کا اپنا جو بحری جہاز 'سیچوان‘ لانچ کیا ہے، وہ سمندر میں اور خشکی پر بھی یکساں صلاحیت سے جنگی حملے کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
چین گزشتہ ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے اپنی بحری افواج کو جدید بنانے کی کوششیں کر رہا ہے۔ 'سیچوان‘ کی لانچنگ سے یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ چینی بحری طاقت کتنی مضبوط ہو چکی ہے۔
’ہم امریکی جنگی بحری جہازوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں،‘ چینی فوج
یہ اسالٹ شپ جمعہ 27 دسمبر کو لانچ کیا گیا اور اس کی لانچنگ کی تقریب شنگھائی کے ہوڈونگ ژونگ ہوا شپ یارڈ میں منعقد ہوئی۔
ہم اس بحری جہاز کے بارے میں کیا جانتے ہیں؟
سیچوان 076 طرز کا زمینی کے ساتھ ساتھ بحری نوعیت کے عسکری مقاصد کے حصول کا اہل اپنی نوعیت کا پہلا ماڈل اور چینی بحریہ کو ملنے والا آج تک کا سب سے بڑا جنگی جہاز ہے۔ یہ لڑائی کے لیے زمینی دستوں کو لانچ کرنے اور فوجیوں کو فضائی مدد فراہم کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
چین کی سرکاری نیوز ایجنسی شنہوا کے مطابق یہ جنگی بحری جہاز ایک برقی مقناطیسی کیٹاپلٹ سے لیس ہے، جس کے ذریعے جنگی طیارے اس کے عشرے سے براہ راست فضا میں بلند ہو کر حملہ کر سکتے ہیں۔ 'سیچوان‘ میں 'اریسٹر ٹیکنالوجی‘ بھی استعمال کی گئی ہے تاکہ لڑاکا طیارے زیادہ فاصلہ طے کیے بغیر اس کے ڈیک پر اتر کر فوراﹰ رک سکیں۔
اس نئے جنگی بحری جہاز کو عملی خدمات کے لیے چینی بحریہ میں شامل کیے جانے سے قبل مزید جانچ اور سمندری آزمائشی مراحل سے گزارا جائے گا۔
چین کے بحری عزائم
چین کی پیپلز لبریشن نیوی خود کو جدید بنانے پر بڑے انہماک سے کام کر رہی ہے۔ اپنے جنگی جہازوں کی تعداد کے اعتبار سے دنیا کی یہ سب سے بڑی بحریہ ایک دہائی سے بھی زیادہ عرصے سے اپنی عسکری صلاحیتوں میں وسعت اور جدت کے لیے کوشاں ہے۔ چین نے 2019 ء میں 075 طرز کے 'ایمفیبیئس اسالٹ شپس‘ کا اپنا پہلا سیٹ لانچ کیا تھا۔ یہ بحری جہاز زمینی اور بحری دونوں طرح کے عسکری مقاصد کے لیے استعمال ہو سکتے ہیں۔
بیجنگ کا مقصد ہے کہ اس کی افواج صرف چین کے قریب ہی مصروف عمل رہنے کی اہل ہونے کے بجائے عالمی سطح پر بھی کام کرنے کے قابل ہوں۔
تائیوان کے اطراف میں چینی اقدامات سے کشیدگی میں اضافہ، جرمنی
'سیچوان‘ اپ گریڈ ایک ایسے وقت پر کیا گیا ہے، جب محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ یہ ملک ایٹمی طاقت سے چلنے والے طیارہ بردار بحری جہازوں کی تیاری پر بھی کام کر رہا ہے تاکہ چینی بحریہ کو ان بحری جہازوں میں ایندھن بھرنے کے لیے کسی بحری اڈے کی ضرورت نہ پڑے اور وہ دور دروز علاقوں میں بھی تعینات کیے جا سکیں۔
امریکی بحریہ کی صورتحال کیا ہے؟
امریکہ کے پاس اس وقت 11 طیارہ بردار بحری جہاز ہیں اور یہ سب جوہری طاقت سے چلنے والے ہیں۔ اس طرح امریکہ کسی بھی وقت دنیا بھر میں کسی بھی جگہ اپنی متعدد 'نیول اسالٹ‘ ٹیمیں تعینات کرنے کے قابل ہے۔
چین کو متعدد ممالک کے ساتھ سمندری تنازعات کا سامنا ہے۔ بہت سے سمندری علاقوں پر بیجنگ اپنی تقریباً مکمل ملکیت یا خود مختاری کے دعوے کرتا ہے۔ بیجنگ کا جاپان کے ساتھ سینکاکو جزائر پر بھی تنازعہ ہے، جنہیں چین میں دیاؤیو جزائر کہا جاتا ہے۔
چین کی آبنائے تائیوان میں تین روزہ جنگی مشقوں کا آغاز
مزید یہ کہ چینی بحریہ نے حالیہ برسوں میں امریکہ کے ساتھ اپنے بگڑتے ہوئے تعلقات کے تناظر میں تائیوان کے ارد گرد کے سمندری علاقے میں بھی اپنی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں۔ چین تائیوان کو اپنا ایک باغی صوبہ قرار دیتا ہے اور اس کے اپنے ساتھ ''دوبارہ اتحاد‘‘ کے لیے طاقت کے ممکنہ استعمال کو بھی مسترد نہیں کرتا۔
ک م/م م (اے پی، ای ایف ای، ڈی پی اے)
/dw/a-71166860