چین نے بحیرہ جنوبی چین میں نیا جزیرہ تیار کر لیا
26 مئی 2015تاہم چینی وزارت دفاع کے ترجمان ژینگ یوژون Yang Yujun کی طرف سے آج منگل 26 مئی کو کہا گیا ہے کہ اس جزیرے پر یہ تعمیراتی کام ملک بھر میں جاری دیگر ترقیاتی کاموں کی طرح عام سی بات ہے۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق یہ دراصل متنازعہ سمندری علاقے میں چین کی طرف سے ایسے اقدامات پر کی جانے والی تنقید سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔
امریکا کا استدلال ہے کہ انسانوں کی جانب سے کی جانے والی تعمیرات خودمختاری کے دعوے کے طور پر استعمال نہیں کی جا سکتیں۔ مزید یہ کہ امریکا اس صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے کہ چین اس نئے تیار کردہ جزیرے پر میزائل سسٹم اور جنگی طیارے تعینات کر کے اس متنازعہ علاقے پر اپنا دعوے کو مضبوط کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔
تاہم ژینگ نے اس نئے جزیرے کی فوجی اہمیت کو کم تر ثابت کرتے ہوئے کہا اس معاملے کو وہ لوگ زیادہ بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہیں جو اس کے ردعمل کے طور پر نامعلوم مقاصد حاصل کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ان کا واضح اشارہ امریکا کی جانب تھا۔
بیجنگ میں چینی ملٹری اسٹریٹیجی کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کرنے کے لیے بلائی جانے والی نیوز کانفرنس کے دوران ژینگ کا کہنا تھا، ’’ہر روز چین بھر میں ہر طرح کے تعمیراتی کام شروع ہوتے ہیں، جن میں گھروں کی تعمیر، سڑکیں بچھانا اور پلوں کی تعمیر وغیرہ شامل ہوتی ہے۔‘‘ ژینگ کا مزید کہنا تھا، ’’اگر خود مختاری کے زاویے سے دیکھا جائے تو چین کی طرف سے اپنے جزیروں پر تعمیراتی کام دیگر طرح کے ان تعمیراتی کاموں سے چنداں مختلف نہیں ہے جن کا میں ابھی ذکر کیا۔‘‘
چینی وزارت دفاع کے ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ اس طرح کی تعمیرات فوجی اور سویلین دونوں طرح کے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے تیار کی جاتی ہیں مثلاﹰ قدرتی آفات کی صورت میں مدد کے لیے، مچھیروں کو تحفظ یا موسم کی صورتحال پر نظر رکھنے کے لیے۔
انہوں نے امریکا کا براہ راست نام لیے بغیر کہا، ’’میں اس امکان کو رد نہیں کر سکتا کہ بعض ممالک مخصوص ایکشن لینے کے لیے بہانوں کی تلاش میں ہیں۔‘‘
چین مکمل جنوبی بحیرہ چین پر اپنا دعویٰ کرتا ہے جبکہ تائیوان، برونائی، ملائیشیا، ویتنام اور فلپائن کا کہنا ہے کہ وہ تمام یا اس کے کچھ علاقے کے مالک ہیں۔