چین سے آزاد تجارت کا معاہدہ: صنعت کاروں کے تحفظات
6 اپریل 2018پاکستانی ذرائع ابلاغ کے مطابق پاکستانی صنعت کاروں اور تاجروں کو چین کی طرف سے رعایتیں دینے والی حتمی فہرست پر شدید تحفظات ہیں۔ پاکستان کی قومی اسمبلی کی کمیٹی برائے خزانہ نے بھی اس معاہدے کے نکات پر تحفظات کا اظہار کیا تھا اور کچھ ارکان کے خیال میں اس معاہدے کی نوعیت بہت خفیہ ہے۔ اس معاہدے کے لیے دس مزاکراتی اجلاس ہوئے ہیں۔ تاہم صنعتی حلقوں اور بورڈ آف ریونیو نے اس معاہدے کی اس وقت کھل کر مخالفت کی جب انہیں ایک اجلاس میں بتایا گیا کہ چین کو 75فیصد امپورٹڈ ٹیرف لائن پر زیرو ڈیوٹی دی جائے گی۔
پاکستان کے صنعت کاروں کو شکایت ہے کہ حکومت نے ان کو اس مسئلے پر اعتماد میں نہیں لیا۔ لاہور چیمبر آف کامرس سے وابستہ الماس حیدر کا کہنا ہے کہ صرف کچھ اجلاس اس سلسلے میں ہوئے تھے لیکن وہ بھی کوئی فیصلہ کن یا جامع نہیں تھے،’’ہمیں یہ معلوم ہی نہیں کہ حکومت کون سی اشیاء پر ڈیوٹی ختم کر رہی ہے۔ ہم سے اس حوالے سے مشور ہ ہی نہیں کیا گیا۔ حکومت کے بیورو کریٹس اپنے طور پر یہ معاہدہ کرنا چاہتے تھے۔ جس پر ہمارے لوگوں نے تحفظات کا اظہار کیا اور پھر حکومت اس معاہدے پر دستخط نہیں کر سکی۔ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ کونسے آئیٹمز ہیں آیا کہ یہ ویجیٹبل آئل ہے یا ٹیکسٹائل کی مصنوعات۔ یہ ہمیں معلوم ہونا چاہیے۔‘‘
حکومت اور ماضی میں فری ٹریڈ معاہدے سے وابستہ رہنے والے افراد کا دعویٰ ہے کہ اب تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے سابق سکریٹری خزانہ وقار مسعود نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’یہ معاہدہ دس برس پہلے کیا گیا تھا، جس پر اب دوبارہ سے مذاکرات ہورہے ہیں۔ پہلے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا۔‘‘
واضح رہے کہ بیجنگ اور اسلام آباد کے درمیان پہلا آزاد تجارت کا معاہدہ دوہزار چھ میں ہوا تھا، جس کا اطلاق دو ہزار ساتھ سے شروع ہوا۔ پاکستان میں ناقدین کا خیال ہے کہ اس پہلے معاہدے سے پاکستان کی صنعت کو فائدہ ہونے کے بجائے نقصان ہوا۔ پاکستان جرنل آف کامرس اینڈ سوشل سائینسز کی ایک رپورٹ کے مطابق اس معاہدے سے پاکستان کو رئیل جی ڈی پی میں فائدہ نہیں ہوا۔ اس کے علاوہ چین کے ساتھ پاکستان کا تجارتی خسارہ بھی بڑھا۔ ماہرین کے خیال میں پاکستان ٹیکسٹائل، ویجٹیبل آئل، لیدر، کیمیکل اور میٹل کی مصنوعات میں فائدہ اٹھا سکتا تھا لیکن پیداواری لاگت اور دوسرے عوامل کی وجہ سے اسلام آباد یہ فائدہ نہیں اٹھا سکا۔
انگریزی روزنامہ ایکسپریس ٹریبون کی ایک رپورٹ کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم دوہزار سترہ میں پندرہ اعشاریہ چھ ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جب کہ آزاد تجارتی معاہدے سے پہلے یہ صرف چار بلین تھا لیکن ماہرین کے خیال میں تجارت کا توازن پاکستان کے حق میں نہیں ہے۔گزشتہ برس پاکستان نے چین کو صرف ایک اعشاریہ پانچ بلین ڈالرز مالیت کی اشیاء برآمد کیں جب کہ پاکستان کی امپورٹس کی مالیت چودہ بلین ڈالرز کی تھی۔ معیشت دانوں کے خیال میں یہ ہی وہی منظر نامہ ہے جو پاکستانی صنعت کاروں کو پریشان کر رہا ہے۔ لیکن صنعتی برادری میں ہی کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حکومت کسی بھی صورت مقامی صنعت کاروں کو مطمئن نہیں کر سکتی کیونکہ وہ پاکستانی مارکیٹ میں اپنی اجارہ داری قائم رکھ کے عوام کو مہنگی اشیاء بیچنا چاہتے ہیں۔
گو کہ صنعت کاروں کی ایک بڑی تعداد اس معاہدے کے خلاف ہے۔ ایک چھوٹی تعداد اس کے حق میں بھی ہے۔ معروف صنعت کار احمد چنائے نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان میں ٹیکسٹائل اور اسٹیل سمیت کئی صنعتوں کی لابیاں ہیں، جن کے سیاست دانوں سے قریبی مراسم ہیں اور وہ اس وجہ سے اس معاہدے کے خلاف پرو پیگنڈہ کر رہے ہیں۔ یہ لابی عوام کو مہنگی اشیاء دے کر بے پناہ منافع کما رہے ہیں۔ مارکیٹ کھلنے سے ان کے اس منافع کو دھچکا لگے گا لیکن عوام کو سستی اشیاء ملیں گی۔ مثال کے طور پر خام سریا پاکستان کے مقامی صنعت کار نوے سے ایک لاکھ روپے فی ٹن میں فروخت کرتے ہیں جب کہ چین سے معاہدے ہونے کی صورت میں یہ سریا چالیس سے پچاس ہزار روپے فی ٹن ہوسکتا ہے۔ جس سے کروڑوں افراد کو فائدہ ہوگا اور وہ سستے گھر بنا سکیں گے۔ اسی طرح ٹیکسٹائل میں جو لباس مقامی صنعت کار کو ایک یا دو ہزار کا پڑتا ہے وہ مارکیٹ میں دس سے بارہ ہزار کا بیچا جاتا ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ مارکیٹ میں مقابلہ نہیں ہے۔ اگر چین سے یہ کپڑا آنے لگے تو قیمتوں میں بہت کمی ہو گی۔‘‘