چین اور پاکستان: ہر شعبے میں تعاون نئی بلندیوں کی جانب
21 اپریل 2015تجزیہ کاروں کے مطابق چینی صدر شی چن پنگ کے دورے میں تقریباً ہر شعبے میں دوطرفہ تعاون کو نئی بلندیوں پر لے جانے کا عہد کیا گیا۔ تاہم دفاعی اور اقتصادی شعبوں میں دوطرفہ تعاون کے پاکستان چین اور خطے کے مستقبل کے لیے اہم مضمرات ہوں گے۔
دفاعی تجزیہ کار بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر کا کہنا ہے کہ چینی صدر کے دورے میں دونوں ممالک کا دہشتگردی کے خلاف مل جل کر کام کرنے کا عزم بھی نمایاں رہا۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بریگیڈیئر ریٹائرڈ اسد منیر نے کہا ’’کچھ حلقے یہ تاثر پھیلا رہے تھے کہ شاید چینی قیادت ترکمانستان اسلامک موومنٹ کے خلاف موثر کارروائیاں نہ کرنے کے معاملے پر پاکستان کے کردار پر مطمئن نہیں۔ لیکن چین کے صدر نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں دہشتگردی کے خلاف پاکستانی کردار کو جس طرح کھل کر سراہا اس سے نہ صرف پاکستانی قوم کے حوصلے بلند ہوئے بلکہ منفی خبروں کا تاثر بھی زائل ہو گیا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات درست ہے کہ خطے میں چین کے اپنے بھی دفاع و سلامتی کے مفادات ہیں لیکن یہ مفادات بھی پاکستان کے دفاع اور سلامتی سے جڑے ہوئے ہیں۔
چینی صدر کے دورے کے دوران پاکستان میں 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے اعلانات اور اقتصادی تعاون کے 51 معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط بھی کیے گئے۔ اقتصادی تجزیہ کاروں کے مطابق چین کی طرف سے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے اعلان کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ بیجنگ پاکستان کے ساتھ طویل المدتی اسٹریٹجک اور اقتصادی تعاون کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔ تاہم اقتصادی تجزیہ کار ڈاکٹر فرخ سلیم کا کہنا ہے کہ پاک چین اقتصادی شراکت داری کا توازن واضح طور پر چین کے حق میں ہے۔ انہوں نے کہا ’’پاکستان اور چین کے درمیان اس وقت تجارتی حجم 12 ارب ڈالر ہے اور اس میں سے چین کی پاکستان کو ایکسپورٹ 10 ارب ڈالر کی ہے۔ تو اس طرح پاکستان کے حق میں صرف دو ارب ڈالر جاتے ہیں۔ یہ اتنا بڑا تجارتی خسارہ ہے کہ پاکستان کا دیگر تمام ملکوں کے ساتھ تجارتی خسارہ ایک طرف اور چین کے ساتھ تجارتی خسارہ ایک طرف ہے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ چین کی نوے فیصد ایکسپورٹ اس وقت ساؤتھ اور ساؤتھ ایسٹ کے سمندری راستوں کے ذریعے ہو رہی ہیں۔ اور چین کو اس وقت وسط ایشیائی ریاستوں کے لیے ایک متبادل سمندری راستہ درکار تھا۔ اور اسے گوادر پورٹ کی شکل میں یہ راستہ مہیا ہو جائے گا۔ ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر فرخ سلیم نے کہا کہ کوئی بھی ملک دوسرے کو اس کی مرضی کے بغیر اپنی ‘اقتصادی کالونی’ نہیں بنا سکتا۔ پاکستان کو اپنی کمزوریوں پر قابو پا کر چین کے اقتصادی تعاون سے مستفید ہونا پڑے گا۔
توانائی کے شعبے سے منسلک ماہرین کا کہنا ہے کہ چین کی طرف سے پاکستان میں اّسی فیصد سرمایہ کاری توانائی اور بجلی کے پیداوار کے شعبوں میں کی جائے گی اس کے لیے پاکستان کو اپنے انرجی اور پاور سیکٹر میں اصلاحات لانا ہوں گی۔ ورنہ اس سرمایہ کاری کے مطلوبہ نتائج برآمد نہیں ہو سکیں گے۔ موجودہ بین الاقوامی اور خطے کی صورتحال میں چینی صدر کی پاکستان آمد کو دور رس نتائج کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔