ججوں کے الزامات: تصدق جیلانی تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ نامزد
30 مارچ 2024پاکستان میں وفاقی کابینہ نے آج بروز ہفتہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے عدالتی امور میں ایک ملکی خفیہ ایجنسیی کی مبینہ مداخلت کے خلاف لکھے گئے خط کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن تشکیل دیتے ہوئے سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کو اس کمیشن کا سربراہ نامزد کیا ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر، جسٹس بابر ستار، طارق محمود جہانگیری، جسٹس سردار اعجاز اسحاق خان، جسٹس ارباب محمد طاہر اور جسٹس سمن رفت امتیاز کی جانب سے 25 مارچ کو سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے گئے ایک خط میں کہا کیا گیا تھا کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلیجنس ( آئی ایس آئی) کے اہلکار عدالتی کارروائی اور فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس پیش رفت کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور وزیر اعظم شہباز شریف کے مابین ایک ملاقات میں اس خط میں لگائے گئے الزامات کی تحقیقات کے لیے ایک کمیشن بنانے کے حوالے سے بات چیت ہوئی تھی۔
وزیر اعظم شہباز شریف کی سربراہی میں آج تیس مارچ بروز ہفتہ وفاقی کابینہ کے ایک اجلاس کے بعد جاری کیے گئے بیان میں اس بات کو دہراتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کابینہ کے اجلاس میں اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ جج صاحبان کی جانب سے لکھے گئے خط کے مندرجات پر تفصیلی غور کیا گیا، جس کے بعد وفاقی کابینہ نے اس خط کے مندرجات کا جائزہ لینے اور ان کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیشن کی تشکیل کی منظوری دیتے ہوئے سابق چیف جسٹس پاکستان جناب تصدق حسین جیلانی کو انکوائری کمیشن کا سربراہ نامزد کردیا۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ وفاقی کابینہ نے انکوائری کمیشن کی شرائط کار یا ٹرمز آف ریفرنس (ٹی اوآرز) کی بھی منظوری دی، جن کے مطابق انکوائری کمیشن اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج صاحبان کے خط میں عائد کردہ الزامات کی مکمل چھان بین کرے گا اور تعین کرے گا کہ آیا یہ الزامات درست ہیں یا نہیں۔
انکوائری کمیشن اس بات کا تعین بھی کرے گا کہ آیا "کوئی اہلکار (عدالتی کارروائیوں اور فیصلوں میں) براہ راست مداخلت میں ملوث تھا" یا نہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ کمیشن اپنی تحقیق میں سامنے آنے والے حقائق کی بنیاد پر کسی "ایجنسی، محکمے یا حکومتی ادارے" کے خلاف کارروائی تجویز کرے گا اور کمیشن کو یہ بھی اختیار ہوگا کہ وہ انکوائری کے دوران ضروری سمجھے تو کسی اور معاملے کی بھی جانچ کرسکتا ہے۔
ساتھ ہی حکومتی بیان میں یہ بھی واضح کیا گیا ہے،" کابینہ کے اجلاس نے چھ معزز جج صاحبان کے خط میں ایگزیکٹو کی مداخلت کے الزام کی نفی کرتے ہوئے اسے نامناسب قرار دیا۔ کابینہ ارکان کی متفقہ رائے تھی کہ دستور پاکستان 1973 میں طے کردہ تین ریاستی اداروں میں اختیارات کی تقسیم کے اصول پرپختہ یقین رکھتے ہیں۔"
اس بیان کے مطابق وزیراعظم شہبازشریف نے عدلیہ کی آزادی اور دستوری اختیارات کی تقسیم کے اصول پر کامل یقین رکھنے کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کابینہ کو اس خط کے بعد اپنے مشاورت اور چیف جسٹس پاکستان سے ہونے والی ملاقات کے بارے میں بھی اعتماد میں لیا، جبکہ کابینہ نے وزیراعظم کے فیصلوں اور اب تک کے اقدامات کی مکمل توثیق وحمایت کی۔
م ا⁄ ش خ