چار مغز: کابل کی پہلی بس لائبریری
28 مئی 2018افغانستان کے دارالحکومت کی گرد آلود سڑکوں پردھول اڑاتی کتابوں سے بھری یہ بس، یہاں اپنی نوعیت کی پہلی موبائل لائبریری ہے جو سڑکوں پر نظر آنے والے بچوں کو کتابوں تک بلا معاوضہ رسائی دیتی ہے۔ یہ لائبریری ان بچوں کے لیے ایک محفوظ سایہ بھی فراہم کرتی ہے جو حالات کے باعث صرف گھروں تک ہی محدود ہو گئے ہیں۔
چار مغز لائبریری سے روزآنہ قریب تین سو بچے فائدہ اٹھاتے ہیں جو یہاں کے حالات کے پیش نظر ایک غیر معمولی بات ہے۔ اس بس کو ایک سرکاری بس کمپنی سے کرائے پر حاصل کیا گیا ہے اور اسے کسی حکومتی عمارت، مین روڈ یا پُر ہجوم مقامات سے دور ہی رکھا جاتا ہے۔
روایتی لائبریریوں میں عموماﹰ آپس میں بات کرنے کی ممانعت ہوتی ہے لیکن چار مغز میں باتوں کی مستقلاﹰ ہلکی سی آوازیں سنائی دیتی ہے۔کچھ بچے یہاں فرش پر بچھے کارپٹ پر بیٹھے ہیں توکچھ یہاں رکھی گئی کرسیوں پر افغان پبلشرز کی عطیہ کردہ کتابیں پڑھنے میں مگن ہوتے ہیں۔ یہاں ایسی چھ سو کتابیں موجود ہیں جو بچوں کو متوجہ رکھتی ہیں۔ ایک تیرہ سالہ بچی زہرہ نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ وہ ہفتے میں ایک بار یہ کتابیں پڑھنے ضرور آتی ہے، ’’آج میں اپنی صحت مزید بہتر کرنے پر لکھی گئی ایک کتاب پڑھ رہی ہوں۔ میں یہ پڑھ رہی ہوں کہ صحتمند رہنے کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے، کیا کھانا چاہیے۔ جب میں گھر جاؤں گی تو یہ کہانیاں اپنے بھائی بہنوں کو سناؤں گی۔ ‘‘
اس لائبریری بس کو رواں برس فروری میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے گریجویٹ فرشتہ کریم نے شروع کیا اور خود کو افغانستان کے بچوں کو پڑھنے کا موقع دینے کے لیے وقف کر دیا۔ وہ کہتی ہیں، ’’جب ہم چھوٹے تھے تو ہمیں بچوں کی لائبریریوں تک رسائی نہیں تھی۔ مجھے یاد ہے کہ ہمارے اسکول میں تو بیٹھنے کے لیے کرسیاں تک نہیں تھیں اور ہم فرش پر بیٹھ کر پڑھتے تھے۔‘‘
بس بُک لائبریری: نوجوانوں تک کتابیں پہنچانے کا انوکھا ذریعہ
اس سال کے اعداد وشمار کے مطابق آٹھ ملین بچے اسکولوں میں داخل ہیں۔ تاہم اب بھی اسکول جانے کی عمر کے 3.5 ملین بچے اسکولوں کی بندش، خانہ جنگی اور غربت کی وجہ سے اسکولوں سے باہر ہیں۔ ان حالات میں فرشتہ کریم جانتی ہیں کہ ان کی یہ بس لائبریری خواندگی میں اضافہ تو نہیں کر سکے گی تاہم یہ ضرور ہے کہ جو کچھ حاصل ہے اس سے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
ع ف / ا ب ا (اے ایف پی)