پیغمبر اسلام کے خاکے: پاکستان میں احتجاج
16 جنوری 2015شارلی ایبڈو کے خلاف گزشتہ روز پاکستانی اراکین پارلیمنٹ نے مذمتی قرارداد منظور کی بلکہ پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد کے باہر احتجاج بھی کیا تھا۔
جمعے کی صبح ملک بھر کی بار ایسوسی ایشنز کے زیر اہتمام وکلاء نے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے۔ نماز جمعہ کے بعد جماعت اسلامی پاکستان، سنی تحریک، جماعت الدعوة کے زیر اہتمام ملک کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں مظاہرے کیے گئے۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں جماعت اسلامی اور جماعت الدعوة کے زیر اہتمام الگ الگ احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
سینکڑوں کی تعداد میں مظاہرین نے شارلی ایبڈو میں پیغمبر اسلام کے خاکوں کی اشاعت پر غم و غصے کا اظہار کیا۔ مظاہرین نے پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر شارلی ایبڈو کی جانب سے مبینہ طور پر پیغمبر اسلام کا مذاق اڑانے پر سخت مذمت کی گئی تھی۔ مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ فرانسیسی اخبار نے ایک بار پھر دنیا بھر میں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ اسی دوران اسلام آباد میں ایک غیر سرکاری تنظیم کے زیر اہتمام بین المذاہب ہم آہنگی کے موضوع پر کانفرنس کا انعقاد بھی کیا گیا۔کانفرنس میں شریک مختلف مذاہب کے نمائندوں نے کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس کی جانب سے شارلی ایبڈو کے خلاف مذمتی بیان کو خوش آئند قرار دیا۔ کانفرنس میں شریک پاکستانی علماء کونسل کے چیئرمین حافظ طاہر اشرفی نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی بات کرتے ہوئے کہا: ’’پوپ فرانسس کے بیان سے ان تمام لوگوں کو حوصلہ ملا ہے جو بین المذاہب مکالمے کی بات کرتے ہیں۔۔۔۔ چند افراد یا کسی ایک اخبار کو یہ اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ آزادی اظہار کے نام پر دنیا میں بین المذاہب ہم آہنگی کو متاثر کرے۔‘‘
حافظ طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں وفاق المساجد کے زیر اہتمام 73 ہزار مساجد کی جانب سے شارلی ایبڈو کی شرمناک حرکت کے خلاف متفقہ قرارداد منظور کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مذہبی جماعتیں اس حوالے سے آئندہ کا لائحہ عمل طے کرنے کے لیے 19 جنوری کو لاہور میں ایک بہت بڑی کانفرنس کریں گی۔
دریں اثناء اطلاعات کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں فرانسیسی قونصل خانے کی جانب بڑھنے والے مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپ ہوئی جس میں فرانسیسی خبر رساں ادارے کے لیے کام کرنے والا ایک فوٹو گرافر گولی لگنے سے زخمی ہو گیا۔ اس کے علاوہ مظاہرے میں شریک ایک شخص اور پولیس اہلکار کے زخمی ہونے کی بھی اطلاع ہے۔ اس موقع پر پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن کا استعمال بھی کیا۔ مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق حالات خراب ہونے پر پولیس کے علاوہ رینجرز کی نفری بھی طلب کر لی گئی۔
دریں اثناء حکومت کی اتحادی جمعیت علمائے اسلام ’ف‘ کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے فرانسیسی حکومت سے شارلی ایبڈو پر پابندی عائد کرنے کی اپیل کی ہے۔ جے یو آئی ف کی جانب سے جاری کیے گئے ایک بیان کے مطابق فرانسیسی میگزین نے دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی اور اشتعال انگیزی پھیلانے کی کوشش کی۔ مولانا فضل الرحمان نے اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ مسلمان اس واقعے پر او آئی سی کے کردار پر مایوس ہیں۔
واضح رہے کہ ماضی میں ڈنمارک کے ایک اخبار کی جانب سے پیغمبر اسلام کے مبینہ توہین آمیز خاکوں کی اشاعت کے بعد پاکستان میں ہونے والے احتجاج نے تشدد اختیار کر لیا تھا اور ملک بھر میں ایک درجن سے زائد افراد ہلاک ہونے کے علاوہ متعدد زخمی بھی ہو گئے تھے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق موجودہ صورتحال میں اگر ان مظاہروں کا سلسلہ بڑھتا ہے تو پاکستانی حکومت کی جانب سے حال ہی میں انتہاء پسندی اور دہشتگردی کے خاتمے کے لیے کیے جانے والے اقدامات متاثر ہو سکتے ہیں۔