پولیو ویکسینیٹرز پر بم حملہ، تین افراد ہلاک
8 اکتوبر 2014یہ دہشت گردانہ واقعہ افغانستان کے ساتھ سرحد کے قریب قبائلی علاقے مہمند ایجنسی کے گاؤں علی نگر میں پیش آیا۔ اس علاقے میں طالبان عسکریت پسند ہنوز سرگرم ہیں۔
ایک مقامی حکومتی اہلکار خوشحال خان نے خبر ایجنسی اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ یہ بم دھماکا پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیم کے ایک کارکن محمد گُل کے گھر کے نزدیک اُس وقت ہوا جب وہ اپنے بھائی اور پولیو مہم کے ایک کارکن کے ہمراہ اپنے ایک کزن کے ساتھ چہل قدمی کر رہے تھے۔ خوشحال خان نے پولیو مہم کے دو کارکنوں سمیت تیسرے فرد کی ہلاکت کی بھی تصدیق کر دی ہے تاہم یہ امر ابھی تک واضح نہیں ہے کہ آیا ان پولیو ورکرز کو خاص طور سے اس بم حملے کا نشانہ بنایا گیا؟
دریں اثناء ایک اور مقامی سکیورٹی اہلکار نے بم دھماکے اور ہلاکتوں کی تصدیق کر دی ہے۔ بم دھماکے کی ذمہ داری اب تک کسی نے قبول نہیں کی تاہم پاکستان میں ایک عرصے سے پولیو کے انسداد کے لیے جاری مہم میں شامل کارکنوں کو عسکریت پسند دہشت گردانہ حملوں کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ان عسکریت پسندوں کا دعویٰ ہے کہ انسداد پولیو کی مہم کی آڑ میں مغرب مسلمانوں کو بانجھ بنانے کی سازش کر رہا ہے۔ ان انتہا پسندوں کے ایسی سازشوں سے متعلق نظریات کو مزید تقویت اُس وقت ملی تھی جب اسامہ بن لادن کی تلاش کے لیے جاری کارروائی کے دوران سی آئی اے نے پاکستان کے شورش زدہ قبائلی علاقے میں پولیو ویکسینیشن کا ایک نیا پروگرام شروع کرنے کے لیے چند مقامی ہیلتھ ورکرز اور ڈاکٹروں کو بھرتی کیا تھا۔
دسمبر 2012ء سے اب تک پولیو کے قطرے پلانے والی ٹیموں پر پاکستان میں کیے جانے والے دہشت گردانہ حملوں میں قریب 60 ہیلتھ ورکرز اور انہیں تحفظ فراہم کرنے والے پولیس اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران پاکستان میں پولیو کے نئے کیسز میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور اس سال کے دوران ان کی اب تک کی مجموعی تعداد 200 سے تجاوز کر چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق گزشتہ 14 سالوں کے دوران پاکستان میں پولیو کے کیسز کی تعداد بہت زیادہ بڑھی ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان میں سے 136 پولیو کیسز کی تشخیص افغانستان سے ملحقہ پاکستان کے شمال مشرقی قبائلی علاقوں میں ہوئی ہے۔ یہی وہ علاقہ ہے جسے القاعدہ اور طالبان عسکریت پسندوں کا گڑھ مانا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جہاں قبائلی علاقوں میں پولیو کے کیسز میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، وہاں بیشتر متاثرہ بچوں کا تعلق قبائلی علاقوں اور صوبے خیبر پختونخوا سے ہے۔