حکومت نے مطالبات مان لیے، یونیورسٹی اساتذہ کا احتجاج ختم
30 جون 2020تفصیلات کے مطابق فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشنز (فپواسا) کی دعوت پر صوبے بھر کی سرکاری یونیورسٹیوں کے اساتذہ نے منگل کے روز پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاج کرنے کا اعلان کر رکھا تھا لیکن اس احتجاج سے پہلے ہی گورنر چوہدری سرور اور پنجاب میں ہائیر ایجوکیشن کے وزیر راجہ یاسر ہمایوں نے اساتذہ کے نمائندوں سے ملاقات کر کے ان کے مطالبات کی منظوری کی یقین دھانی کروا دی۔
اس حوالے سے اساتذہ اور حکومت میں ہونے والے ایک تحریری معاہدے کے بعد احتجاج کے خاتمے کا اعلان کر دیا گیا۔
اساتذہ کو اعتماد میں لینے کا وعدہ
پنجاب یونیورسٹی اولڈ کیمپس میں ایک پر ہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے فپواسا پنجاب کے صدر پروفیسر ڈاکٹر ممتاز انور نے اس معاہدے کی تفصیلات بتائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے انہیں پنجاب کی سرکاری جامعات کی خود مختاری پر سمجھوتہ نہ کرنے کی یقین دہانی کروائی گئی ہے۔ ان کے بقول اس بات پر بھی اتفاق کیا گیا ہے کہ یونیورسٹیوں کے حوالے سے کی جانے والے کسی بھی قانون سازی میں اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن سے مشاورت کی جائے گی اور یونیورسٹیوں میں قوانین کی یکسانیت کے حوالے سے اٹھائے جانے والے اقدامات میں پنجاب یونیورسٹی کے ماڈل کو سامنے رکھا جائے گا۔
تنازعہ کیا تھا؟
ایلومینائی ایسوسی ایشن پنجاب یونیورسٹی کے نائب صدر راجہ منور نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پنجاب حکومت صوبے میں سرکاری جامعات کے قانون میں تبدیلی لانا چاہتی تھی۔ صوبے کی پرانی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلرزکو سنڈیکیٹ کے سربراہ کے طور پر اہم مالی اور انتظامی اختیارات حاصل ہیں، لیکن اب یونیورسٹیوں میں اہم فیصلوں کی حتمی منظوری دینے والے اہم ادارے یونیورسٹی سنڈیکیٹ کی سربراہی کسی ریٹائرڈ جج یا بیوروکریٹ کو دیے جانے کی تجویز تھی۔ اس سے یونیورسٹیوں کے معاملات میں مداخلت کے راستے کھل سکتے ہیں۔ ان کے مطابق نئے مسودے کے مطابق وائس چانسلر کو پیڈا ایکٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اس کی کارکردگی کی جانچ کی ذمہ داری صوبے کے ہائیر ایجوکیشن کے محکمے کو دی جانے کی تجویز دی گئی تھی۔
پاکستان کے ممتاز ماہرتعلیم پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اعلی تعلیم کی بہتری اور نئے علوم کی تخلیق و تحقیق کے لئے یونیورسٹیوں کی خودمختاری ضروری ہے۔ پاکستانی یونیورسٹیوں کی خودمختاری پہلے ہی کم کی جا چکی ہے اب افسر شاہی کی خواہش ہے کہ رہی سہی خودمختاری کو بھی چھین لیا جائے۔ اگر صوبے کی درجنوں یونیورسٹیوں کے گریڈ بائیس کے وائس چانسلرز کو گریڈ انیس یا بیس کے سیکریٹری ہائیر ایجوکیشن کے ذریعے چلانے کی کوشش کی گئی تو اس سے بڑی تباہی ہو گی اور یہ یونیورسٹیاں سکول بن کر رہ جائیں گی۔ ان کے بقول مہذب دنیا میں کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا جیسا کہ یہاں کیا جا رہا ہے۔
سرکاری یونیورسٹیوں کے مالی مسائل
ڈاکٹر ممتاز انور کے مطابق حکومتی نمائندوں کو سرکاری جامعات کو درپیش مالی مسائل کے حوالے بھی آگاہ کیا گیا کہ کورونا کی وجہ سے فیسیں جمع نہ ہو سکنے اور بہت کم مالی وسائل کی وجہ سے پنجاب کی بعض سرکاری جامعات اپنے اساتذہ اور ملازمین کو تنخواہ دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں۔ اس پر گورنر چوہدری سرور نے انہیں بتایا کہ وزیر اعظم عمران خان نے اس مسئلے کے حل کے لیے اقدامات کی ہدایت کی ہے اور مالی مشکلات کی شکار جامعات کی مدد کی جائے گی۔
آج کے اجلاس میں اعلی تعلیم کے حوالے سے کی جانے والی تمام اصلاحات میں اساتذہ سے مشاورت یقینی بنانے اور تعلیمی نظام کی بہتری کے لیے حکومت اور اساتذہ کے ساتھ رابطے جاری رکھنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر ممتاز انور نے بتایا کہ ہماری بھی خواہش ہے کہ سرکاری جامعات کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور تحقیق و تدریس کے میعار میں بہتری کے لیے سٹیک ہولڈرز سے مشاورت ہونی چاہیے۔