آج کل بچوں کے ساتھ بیٹھ کر پولیٹیکل ٹاک شوز دیکھتے ہوئے الرٹ رہنا پڑتا ہے۔ ریموٹ ہاتھ میں رکھنا پڑتا ہے نا جانے کب کس شو میں سیاسی لیڈران کی آڈیو، ویڈیو لیک کے قصے چھڑ جائیں۔ ہر دوسرے، تیسرے چینل پر انتہائی غلیظ اور نازیبا الفاظ کی بین بج رہی ہوتی ہے۔ چند سالوں سے سیاست میں بھونچال نے سب کو عیاں کر دیا ہے، کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ سوشل میڈیا پر آڈیو ویڈیو لیک کا اک تماشہ سا لگا رہتا ہے۔ اب بچے براہ راست دریافت کرتے ہیں کہ یہ آڈیو/ویڈیو لیک کیا ہے؟ تو آپ کے پاس وضاحت کے لیے کچھ نہیں بچتا لہذا اپنی اتھارٹی استعمال کرتے ہوئے انہیں چپ کروا دیتے ہیں۔
پریشان کن بات تو یہ ہے کہ ٹاک شوز اب باقاعدہ مچھلی منڈی میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ عصر حاضر کی گلابی ماڈرن سیاست نے کوئی گالی چھوڑی ہی نہیں ہے۔ گالی سیاست کی پہچان بن چکی ہے۔ حالانکہ سیاست بے لوث خدمت اور معتدل رویوں کو فروغ دینے کا نام ہے۔ احترامِ آدمیت کے بغیر سیاست فاشزم ہے۔ مرنے مارنے کی باتیں کرنا ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کی بوچھاڑ کرنا، ایک دوسرے کو دہشت گرد کہنا، بدقسمتی سے پاکستانی سیاست کا خاصہ بن چکا ہے۔ دراصل موسمی سیاست دانوں نے سیاست کو جھوٹ اور کرپشن بنا ڈالا ہے۔ اوپر سے چمچہ گیری کرنے والوں کو پارٹی کی جانب سے دشنام طرازیوں کا محاذ الاٹ کر دیا جاتا ہے کہ جاؤ جا کر زبان کی قینچی سے مخالفین کا کام تمام کر دو۔ ایسے میں نا تجربہ کار سیاست دان جن کی سیاسی ٹریننگ ہی ایک لیڈر کی نہیں ہوئی ہوتی، پارٹیاں تبدیل کرکے وہ اپنے ایکس قائد کے خلاف یوں بدخوئی کرتے نظر آتے ہیں جیسے بکریوں کے ریوڑ میں بکری کے بھیس میں کوئی بھیڑیا ہو اور مناسب وقت پر شب خون مار دیا جائے۔ ان سے کوئی سوال کرنے والا ہی نہیں کہ اگر آپ کے ایکس قائد ملک دشمن تھے یا ان میں یہ خامیاں تھیں تو آپ نے بروقت سچ عوام کے سامنے کیوں نہیں رکھا۔ اپنے عہدے کی خاطر کیوں چپ سادھ لی؟ عوام اور کارکنان تو سیاسی لیڈران سے سیکھتے ہیں جب لیڈران ہی کھوٹے ہوں تو کس سے فریاد کریں؟
یہ تو بالکل ایسے ہے کہ جیسےایک بچہ پتھر مار مار کر درخت پر لگے امرود توڑ رہا تھا، اچانک باغ کا مالک آگیا، بچے نے اسے دیکھا، تو بھاگ نکلا، مالک چِلّایا کوئی بات نہیں، میں تمھارے والد کو بتاؤں گا، وہ تمہاری پٹائی کریں گے۔ یہ سن کر بچہ بولا ابو تو خود درخت پر چڑھے امرود توڑ رہے ہیں۔ یعنی آج کل سیاسی قیادت پچاسی فیصد نزاعات میں بذات خود ملوث ہوتی ہے۔ ان کا آپس میں گتھم گتھا ہونا معمول بن چکا ہے۔ ایوانوں اور اسمبیلیوں میں بس گنڈاسا لے جانا باقی رہ گیا ہے۔ عجب بات ہے کہ وہ کارکنان سے بھی توڑ پھوڑ کی توقعات وابستہ کرتے ہیں۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا پر مخالفین سیاسی لیڈران کی تقاریر میں لائیو کومنٹس کے ذریعے غلیظ زبان کا بے دریغ استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ روح کانپ جاتی ہیں۔ اس سب میں ٹین ایج بچوں کا سب سے زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔ بچے سیاسی پارٹیز کی حماقتوں سے پک چکے ہیں۔ تربیت کا تقاضا ہے کہ بچوں کو سیاسی ٹاک شوز کے سامنے نہ بٹھایا جائے کہ جہاں قائدین اخلاقیات کے بارڈر کو عبور کرتے ہوئے ننگی گالیاں دیتے ہیں۔ علاوہ ازیں گاڑیوں کے پروٹوکول، اسلحہ لیے گارڈز ، ڈیرے، اصطبل خانے وغیرہ ایسا کلچر بچوں پر نہایت مضر اثرات مرتب کر رہا ہے۔
نیز ٹاک شو کے نام پر ایسی نوٹنکی شروع ہو جاتی ہے جس میں یہ بات فراموش کر دی جاتی ہے کہ کوئی فیملی بھی دورانِ شو بیٹھی ہو سکتی ہے۔ دنیا بھر میں مہذب انداز سے سیاسی پارٹیز کا اختلاف ایک جانب رہا لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ لوگ شرم سے منہ چھپاتے ہیں جو آج کل کی پاکستانی سیاست کا حال ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔