پاکستان میں پہلی نیشنل سکیورٹی پالیسی جاری کر دی گئی
27 دسمبر 2021کئی ناقدین کے خیال میں اس پالیسی کی ایک ایسے وقت میں کیوں ضرورت ہے جب افغانستان میں ایک پاکستان نواز حکومت برسراقتدار جبکہ بھارت سے بھی تعلقات اتنے کشیدہ نہیں جتنے کچھ عرصے پہلے تھے۔
پالیسی کے نکات
وزیراعظم ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ وڈیو میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور دوسرے حکومتی اراکین کو دیکھا جاسکتا ہے۔
بلوچستان میں مسلح افراد کا حملہ، دو پاکستانی فوجی ہلاک
اس پالیسی کی منظوری نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے آج ہونے والے اجلاس میں دی گئی جس کی صدارت وزیراعظم عمران خان نے کی۔ وزیر اعظم کے قومی سلامتی کے مشیر ڈاکٹر معید یوسف نے پالیسی پیش کرتے ہوئے اجلاس کو بتایا کہ پاکستان ایک جامع اور سکیورٹی فریم ورک کی طرف شفٹ کر رہا ہے، جس کا بنیادی مقصد شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے۔ اجلاس میں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ پالیسی تمام اسٹیک ہولڈرز کی باہمی مشاورت سے تیار کی گئی ہے اور اس میں معاشی تحفظ کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔ معید یوسف کا کہنا تھا کہ مضبوط معیشت اضافی ذرائع پیدا کرے گی جن کو منصفانہ طور پر ملٹری اور انسانی سکیورٹی بڑھانے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
اسٹریجک پارٹنر تبدیل ہورہے ہیں
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور وزیر اعظم عمران خان کے سابق مشیر برائے خوراک جمشید اقبال چیمہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، " یہ پہلی جامع پالیسی عمران خان کی قیادت میں ملک کو دی جا رہی ہے، پاکستان اپنے اسٹریٹجک پارٹنرز تبدیل کر رہا ہے اور پاکستان کی توجہ روس، چین، ایران اور وسطی ایشیا کی طرف ہو رہی ہے، ایسے میں ہمیں ایک ایسی دستاویز کی ضرورت ہے جو نہ صرف وزارت خارجہ کو رہنمائی فراہم کر سکے بلکہ تمام دوسرے متعلقہ اداروں کو بھی رہنمائی فراہم کر سکے۔‘‘
سکیورٹی خطرات: نیوزی لینڈ نے پاکستان کا دورہ منسوخ کر دیا
سیاسی دستاویز
کئی ناقدین کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی پالیسی ہر ملک کا ایک سیاسی دستاویز ہوتا ہے لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہوتا جہاں پر ایسٹیبلشمنٹ خارجہ امور اور اندرونی معاملات کو کنٹرول کرتی ہے۔ معروف مصنفہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ہر ملک کو نیشنل سکیورٹی پالیسی کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمارے سیاسی طبقے کو مختلف ممالک کی نیشنل سکیورٹی پالیسیز کا جائزہ لینا چاہیے، مثال کے طور پر ساؤتھ افریقہ میں نیشنل سکیورٹی پالیسی بنانے سے پہلے انہوں نے تمام اسٹیک ہولڈرز کو بلا کر اُن کا اِن پُٹ لیا، لیکن ہمارے ہاں بجائے اس کے کہ ہم ایسٹیبلشمنٹ یا آرمی کا اِن پُٹ لیں، ان کو ساتھ بٹھا لیتے ہیں اور پھر وہ پالیسی کو ڈِکٹیٹ کرتے ہیں اور سیاسی جماعتوں یا سیاسی طبقے کا اس میں کوئی کردار نہیں ہوتا۔‘‘
کوئی خاص تبدیلی نہیں
عائشہ صدیقہ کا کہنا تھا کہ اس پالیسی سے کوئی خاص تبدیلی نہیں آئے گی، "پاکستان کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے، آپ کے برابر میں ایک ایسا ملک ہے جہاں کروڑوں کی تعداد میں لوگ بھوکے ہیں، خود پاکستان میں قحط اور پانی کی قلت کے بادل منڈلا رہے ہیں، معیشت کا بُرا حال ہے، ان تمام کا قومی سلامتی پر بہت اثر پڑتا ہے، تو ایسی صورت میں یقیناً ملک میں ایک سکیورٹی پالیسی ہونی چاہیے لیکن یہ سکیورٹی پالیسی اگر انڈیا کو پیش نظر رکھ کر بنائی جائے گی، تواس سے ملک کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوگا۔‘‘
داعش کے اُبھرنے سے پاکستان کو لاحق خطرات
معاشی استحکام اور علاقائی اتحاد
کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ پاکستان کے لیے حالیہ برسوں میں خطرے کی نوعیت بدل گئی ہے اور سکیورٹی کی نئی تعریف میں پاکستانی پالیسی ساز اداروں کی طرف سے ملکی معیشت کو بھی سکیورٹی سے جوڑا جارہا ہے۔ وزیر اعظم نے بھی آج کے اجلاس میں عوامی فلاح اور سکیورٹی کا تعلق بیان کیا ہے۔
اسلام آباد کی نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارے برائے بین الاقوامی امن و سلامتی سے وابستہ ڈاکٹر بکارے نجم الدین کا کہنا ہے، ''پاکستان کافی عرصے سے جیو اکنامک کی بات کررہا ہے کیونکہ بائیس کروڑ کی آبادی والے ملک کے لئے معاشی استحکام بہت ضروری ہے اور پالسی سازوں کے خیال میں معاشی استحکام کے لیے علاقائی اتحاد اور تعاون بہت ضروری ہے۔
افغان طالبان کا کابل پر قبضہ: ’پاکستانی طالبان کے حوصلے بلند‘
عوامی فلاح اور نیشنل سکیورٹی
امریکہ کے ہڈسن انسسٹیٹوٹ سے تعلق رکھنے والے سابق پاکستانی سفیر برائے امریکہ حسین حقانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ چین میں کمیونسٹ پارٹی جب کہ امریکہ میں صدر اور کانگریس جرنیلوں کے لئے پالیسی بناتے ہیں۔
حقانی مزید کہتے ہیں، ''پاکستان ایک جوہری ملک ہے اور اس کی ایک بڑی آرمی ہے، لہذا اس کو کوئی خطرہ نہیں ہونا چاہیے، ہمیں سکیورٹی کے اس خوف سے نکلنا چاہیے اور اپنی توجہ معیشت کو بہتر کرنے، بچوں کو تعلیم دینے اور عوام کے معیار زندگی کو بہتر کرنے پر لگانی چاہیے۔‘‘